31۔ گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ47۔48

31۔ گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا

گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا
جو پیڑ تھا ہاتھ مل رہا تھا
پروا تھی نہ اس کو ڈر کسی کا
سورج سرِ عام ڈھل رہا تھا
غصّے کو تو پی چکا تھا پاگل
اشکوں کو بھی اب نگل رہا تھا
نادان تھا اس قدر کہ اب بھی
ماضی کے لیے مچل رہا تھا
آیا تھا سمندروں سے مل کر
ساحل کی طرح سنبھل رہا تھا
منزل بھی قریب آ گئی تھی
رستہ بھی لہو اُگل رہا تھا
چہرے تو بدل چکے تھے سارے
منظر ہی نہیں بدل رہا تھا
آیا تھا پہاڑ سے اُتر کر
صحرا میں جو پھول جل رہا تھا
اس کو بھی وہ لے گیا چُرا کر
دھرتی پہ یہی کنول رہا تھا
اوپر سے وہ ہو رہا تھا ناراض
اندر سے مگر پگھل رہا تھا
اس درد سے دے رہا تھا دستک
دروازوں کے دل بدل رہا تھا
اک آگ لگی ہوئی تھی دل میں
کب سے یہ مکان جل رہا تھا
مضطرؔ کو وہ یاد کیسے رہتا
خطرہ بھی تو صاف ٹل رہا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں