6۔ کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ11۔12

کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے
پڑے ہوئے

کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے
آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور
بھی
کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے
یہ مقبرے نہیں ہیں شہیدانِ عشق کے
ایفائے عہد کے ہیں حوالے پڑے ہوئے
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک
بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے
تیرے لیے ہی اترے ہیں یہ آسمان سے
جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھا لے پڑے
ہوئے
آمادگی کا نور غزل خواں ہے آنکھ میں
فرطِ حیا سے لب پہ ہیں تالے پڑے ہوئے
اشکوں میں ہیں اَنا کی چٹانیں چھپی
ہوئی
جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے
رہزن کا یوں پڑاؤ ہے رادھا کے کنڈ
پر
جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے
دل سربہ مُہر، کانوں میں روئی بھری
ہوئی
آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے
باہر اٹھا کے پھینک دیے بت غرور کے
کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے
تجدیدِ عہد کے لیے پڑھتا ہوں بار بار
گھر میں ہیں کچھ پرانے رسالے پڑے ہوئے
مضطرؔ کو فکرِ عصمتِ ایمان و آگہی
یاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں