7۔ یادِ رفتگاں

چل
رہی ہے رِیل سی میری نظر کے سامنے
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ47۔48

یادِ رفتگاں

چل رہی ہے رِیل سی میری نظر کے سامنے
رفتگاں کی بھیڑ ہے یادوں کے گھر کے
سامنے
ذہن میں میرے چمکتے ہَیں وُہ چہرے آج
بھی
ماند نہ ہوتے تھے جو شمس و قمر کے سامنے
پیکرِ ضبط و تحمُّل، صبر و ایثار و
رضا
ایستادہ گردشِ شام و سحر کے سامنے
جوہری کی سی پرکھ، لعلِ بدخشاں کی سی
آب
مِثلِ کوہِ نور تھے لعل و گہر کے سامنے
ایک اک کرکے گِرے ہیں کیسے چھتناور
شجر
کھیل کیا کھیلے گئے برگ و ثمر کے سامنے
باعثِ تسکیں رہا اُن کی دعاؤں کا حصار
کتنی فکریں گھومتی ہیں اب نظر کے سامنے
اس تپش میں تو جھلس کر رہ گئی ہے میری
ذات
آگ بھڑکی تھی مرے اپنے ہی گھر کے سامنے
آگ کا دریا تو ہے سینے میں اب بھی موجزن
لاکھ بند باندھا کئے ہم چشمِ تر کے
سامنے
برہمی تقدیر کی یا شورشِ حالات ہو
سانحے ہَیں ہر نفس خستہ جگر کے سامنے
درد کا درماں تو ہے بس ایک ، اپنا سر
جُھکا
مالکِ کون و مکان و بحر و بر کے سامنے
چاہے تو پل میں ہے کر سکتا علاجِ جسم
و روح
بات کیا مشکل ہے میرے چارہ گر کے سامنے
ہستئ موہوم پہ کوئی بھروسہ کیا کرے
ہست کا انجام ہے ہر دیدہ ور کے سامنے
سلسلہ تو ہے وہی لیکن ہے پھر بھی بے
خبر
دُھند کی دیوار ہے روحِ بشر کے سامنے
کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ سفر ہے ناگزیر
ہر کوئی مجبور ہے حکمِ سفر کے سامنے
ایک سوزِ بے بسی بھی اس غمِ پنہاں میں
ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں
ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں