دیباچہ

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ1۔12

 دیباچہ

بسم
اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ہے دراز د ستِ دُعا مرا’ آپ
کے سامنے ہے۔ یہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم سلمہا اللہ کے عارفانہ کلام کا مجموعہ ہے۔
اس پر تنقیدی نظر ڈالنا میرے بس کی بات نہیں۔ نہ ہی میں یہ جسارت کر سکتا ہوں کہ کسی
گھسے پٹے خودساختہ معیار کو سامنے رکھ کر ایک من گھڑت پیمانے یا ترازو سے اس کلام کے
قدوقامت اور حدوداربعہ کا اندازہ لگاؤں۔ پھول کو آپ کیسے ماپ سکتے ہیں۔ خوشبو کو سونگھ
تو سکتے ہیں، تول نہیں سکتے۔ حرف و صوت، اظہار و بیان اور ہیئت اور معنویت پر بہت کچھ
لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ کہیں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحثیں ہیں۔
شعر کی قدروقیمت کو متعین کرنے کے لئے موضوعیت اور معنویت، جدیدیت اور ساختیات غرض
کہ طرح طرح کے پیمانے وضع کئے جا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شعر شعر ہے۔ یہ آپ اپنی
دلیل ہے۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ بے شک شعر کی صحیح تفہیم کیلئے اس کے سیاق و سباق
اور اس کے یونیورس آف ڈس کورس یعنی اس کے پس منظر کی تفہیم بھی ضروری ہے۔ نفسیات کا
معروف اور بنیادی مسئلہ
Figure اور Ground یعنی منظر اور پس منظر کا ہے۔ پس منظر
کے بغیر منظر کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ اور جب منظر اور پس منظر ایک اکائی بن جائیں تو
ادب عالیہ کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ بے شک بقول کولرِج
Poetry is the willing suspension
of disbelief.
شعر وہ ہے جو عدم یقین کو بآسانی معطل
کردے یا بالفاظ دیگر جھوٹ کو سچ کر دکھاوے۔ ممکن ہے شعر کی بعض اقسام پر یہ تعریف صادق
آتی ہو۔ کیونکہ الفاظ کا جادو بھی ایک حقیقت ہے۔ کولرِج کی اپنی شعری کاوشیں مثلاً
قبلائی خان اور
Ancient Mariner وغیرہ
اسی قسم کے شعری ادب کی مشہور مثالیں ہیں۔
لیکن ایسے شعر کے ‘پیر’ تو شاید ہوں۔
‘سر’بہرحال نہیں ہوتا۔ جسم ہو تو جان نہیں ہوتی۔ جان بھی ہو تو روح نہیں ہوتی۔ لیکن
شعر کی ایک قسم وہ بھی ہے جس کی جڑیں اگر زمین میں ہوں تو شاخیں آسمان سے باتیں کر
رہی ہوتی ہیں۔ ایسے شعر کا اگر قبلہ درست ہو تو حسن ہے۔ سچ ہے۔ خیر ہے۔ جس منظوم کلام
میں یہ ابعادِ ثلاثہ جمع ہو جائیں۔ وہ شعر کہلائے گا بلکہ حقیقی معنوں میں صرف اسے
ہی شعر کہا جانا مناسب ہوگا۔ ایسا تخلیقی عمل ایک گونہ اعجاز کا رنگ اپنے اندر رکھتا
ہے۔ لفظ اچانک بیدار ہو جاتے ہیں اور بولنے لگتے ہیں۔ یا بقول فیض ؔ لَو دینے لگتے
ہیں۔ اگر یہ معجزہ ہو جائے تو اسے شعر کہا جائے گابلکہ ان معنوں میں صرف اسے ہی شعر
کہا جائے گا۔
آیئے اس پچاس سالہ بلکہ پوری انسانی
تاریخ کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس لطیف اَور لذیذ روحانی مائدہ سے لطف اندوز
ہوں۔ دیکھیں کس خوبصورتی اَور آداب کے پورے رکھ رکھاؤ کے ساتھ دنیا و مافیہا کی کدورتوں
اَور گردوغبار سے نہ صرف پاک بلکہ بے نیاز، نہ گلہ ہے دوستوں سے نہ شکایت زمانہ۔ اپنے
قادر اَور مالک ربِّ کریم کے دربار میں حاضر ہیں۔ زخموں کو زبان مل رہی ہے۔ دکھ درد،
خوشیاں اَور مسرتیں، قربتیں اور فاصلے
اپنی اپنی گزارشات پیش کر رہے ہیں۔انسان کے شرف، مرتبے اور مقام کا ادراک اَور احساس
زندہ کیا جا رہا ہے۔اور ایمان اوریقین کو ایک تازہ حوصلہ اور ولولہ ارزانی ہو رہا ہے۔
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا۔ بس ایک ہی دھن ہے کہ سب کا خالق اور مالک راضی ہو
جائے۔
آپ کا محبوب روایتی نہیں آسمانی ہے،
مجازی نہیں حقیقی ہے۔ قدرتِ اولیٰ اور ثانیہ کے سب مظہر اور ان سے فراق کی باتیں ہیں۔
ان کی شعری حسّیت سچی۔ ان کے موضوعی اور معروضی حوالے سچے۔ ان کی پکار عین حقیقت یعنی
زمان و مکان اور دنیا و آخرت کے خالق و مالک رحمن اور رحیم خدا کے دربار میں پکار ہے۔
فریاد ہے۔ چیخ ہے۔ جماعت معروضی حوالوں اور امتحانوں اور ابتلاؤں کی جس چکّی میں پِس
کر صحیح سلامت نکلی اور ظلم و ستم کے جن مراحل میں سے گزری اور گزر رہی ہے۔ یہ امتحانی
مراحل ہی ان کے اشعار کا پس منظر ہیں۔ ہجر و فراق، قرب و وصال کے قصے ہیں۔ غمِ جاں
اور غمِ جاناں، ذات اور کائنات کی باتیں ہیں۔ ارباب وطن کی مہربانیوں کا ذکر ہے۔ لیکن
کمال یہ ہے کہ ظلم و ستم کی اس چکّی میں پِس کر بھی اگر کہیں حرف شکایت زبان پر آیا
ہے۔ تو دعا بن کر۔ اوّل سے آخر تک سارا کلام ایک التجا ہے جو اپنے رب کے حضور کی گئی
ہے۔ اور بس۔ غم ہے، فراق ہے، مجبوریاں ہیں، مظلو میت ہے۔ لیکن کہیں غصّے یا جھنجھلاہٹ
کا شائبہ تک نہیں۔ سارا کلام اپنے رب کے حضور ایک مسلسل مناجات ہے اور اس دعا کے بیسیوں
رنگ ہیں اور بے شمار پہلو۔ کہیں اپنے محبوب آقا سے باتیں ہیں۔ کہیں جانے والوں کا ذکر
ہے۔ کہیں آنے والوں سے محبت اور وفا کے تذکرے ہیں۔ قاری ایک محویت کے عالم میں غیر
شعوری طور پر ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہرچند کہ الفاظ کا ذخیرہ تو وہی
ہے جسے شاعر اور غیر شاعر روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب وہی الفاظ آپ کے قلم سے
ادا ہوتے ہیں۔ تو زندہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا ہجر عام ہجر نہیں رہتا نہ ہی ان کا غم معروف
قسم کا غم۔ اگرچہ ان کے کلام کا قالب ارفع، شعری روایت سے الگ اور مختلف نہیں۔ لیکن
اس کلام کی روح سچی اور جذبات پاکیزہ ہیں۔ سارے کلام میں غم کے ساتھ ساتھ کہیں بھی
مایوسی یا فرسٹریشن کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں۔ ایک یقین ہے۔ ایمان ہے۔ وفا ہے۔ امید
ہے۔ ایفائے عہد ہے اور اس فرقت اور شدتِ غم میں بھی ایک کیف و سرور ہے۔ نشاط ہے۔ نشہ
ہے محبوب سے گفتگو ہے۔ اور اس گفتگو میں جو لاڈ اور پیار ہے وہ اگر ممکن ہے تو اس روحانی
اور آسمانی فضا ہی میں ممکن ہے۔
مرزا غالبؔ کہتے ہیں شعر خود خواہش
آں کرد کہ گردد فنِ ما۔ بے شک لکھاری نہیں لکھتا۔ لکھت لکھتی ہے۔ اَور بے ساختہ پن
ہی شعر کی جان ہوا کرتا ہے۔ یہ خصوصیت بھی آپ کے کلام کا جزواعظم ہے۔ یہ دین ہے جسے
داتا دے دے۔ اگرچہ فن کا یہ لفظ جسے سادہ پُرکاری بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں محل نظر ہے۔
شعر یعنی سچے شعر کے خالق کو فنکار کہنا مجھے تو مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ سادہ پرکاری
بھی ریزہ کاری اور تکلّف اور تصنع کا مفہوم اپنے اندر رکھتی ہے۔ غم سچا ہو اور نیت
نیک اور قبلہ درست ہو تو واقعی غیب سے مضامین آتے ہیں۔ اور صریر خامہ نوائے سروش بن
جاتی ہے۔ یہ نوائے سروش آپ کو اس مجموعے میں قدم قدم پر سنائی دے گی۔ بشرطیکہ سننے
والے کان ہوں اور محسوس کرنے والا دل۔
اگرچہ آپ کا سارا کلام ہی شعری اور
جذباتی حسّیت کے لحاظ سے ایک اکائی کا حکم رکھتا ہے اور کہیں بھی اس منفرد، پاکیزہ
اور ارفع سطح سےنیچے نہیں گرنے پاتا۔ لیکن جگہ جگہ ایسے مقام بھی آتے ہیں جو ماؤنٹ
ایورسٹ کی طرح سے دور سے الگ نظر آتے ہیں۔ خصوصاً آپ نے ریختے میں جو غزلیں کہی ہیں۔
اپنا جواب آپ ہیں۔ اگر مثالیں دینی شروع کروں تو ڈرتا ہوں کہیںیہ تعارف بہت طویل نہ
ہو جائے۔ نیز باقی ماندہ اشعار سے ناانصافی کا مرتکب نہ ٹھہروں اس لئے چند ایک اشعار
کو نمونے کے طور پر درج کرتا ہوں۔ آگے سارا سمندر پڑا ہے غوطہ زن ہوں اور موتیوں سے
اپنے اپنے دامن بھرلیں۔ فرماتی ہیں
:
نہ کُوک کوئلیا کُو کُو کُو تُو آگ
لگا اس ساون کو
من میرا بیکل بیکل ہے ، نیناں ڈھونڈیں
من بھاون کو
جب تک بھادوں کی جھڑی رہی مَیں بیچ
جھروکے کھڑی رہی
برکھا بھی جھر جھربرسے ہے مجھ بِرہن
کے کلپاون کو
جا دَوڑ لپٹ جا سینے سے من موہن سامنے
بیٹھا ہے
پگلی ہے ساری عمر پڑی گھبراون کو، شرماون
کو
ان اُونچے پِیڑھے والوں کا اُس وقت
تماشا کیا ہو گا
تقدیر کا ڈمرو باجے گا جب تِگنی ناچ
نچاون کو
سَر بھاری ، پِنڈا دُکھتا ہے ، من پھوڑا
، نظریں گھائل ہیں
وہ کومل ہاتھ ہی چاہیئے ہیں اِن زخموں
کے سہلاون کو
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
حضرت امیر خسروؒ کی زمین میں ایک لمبی
کیف آگیں غزل ہے۔ چند شعر سنئے
:
خسرو میاں کا قول یہ جی کو مرے خوش
آ گیا
تجھ دوستی بسیار ہے اک شب ملو
تو آئے کر
اوروں کا ہر عیب و ہنر ہر دم رہا پیش
نظر
شیشہ جو دیکھا غور کر نظریں جھکیں شرمائے
کر
اس سے ملاقاتاں ہوئیں نہ دید نہ باتاں
ہوئیں
پر کچھ تو ڈھارس ہو گئی اس کی گلی میں
جائے کر
کیا ہے رقیباں جو مری راہوں میں کانٹے
بو دیئے
میری جزا تو مل گئی اُس یار کا کہلائے
کر
چھوٹا سا یہ فتنہ مجھے پل کو بھی دم
لینے نہ دے
پہلو سے نکلا جائے ہے زِچ آ رہی بہلائے
کر
پھر اور بہت سی غزلیں ہیں۔ جو ایسی
تازہ کربلاؤں کے پس منظر میں کہی گئی ہیں۔ جہاں جسم مجبور ہیں۔ لیکن دل بدستور آزاد
ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے۔
اے تخت نشینو! ہم تو اُنہی آنکھوں کا
اشارہ دیکھتے ہیں
خوش فہم نہ ہو کہ چلتے ہیں فرمان تمہارے
ربوہ میں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں ڈال
دیں
رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا
نہ تھا
پیار کے اک بول نے آنکھوں میں ساون
بھر دیئے
اس طرح تو ٹوٹ کے بادل کبھی برسا نہ
تھا
جانے کیوں دل سے مرے اس کی کسک جاتی
نہیں
بات گو چھوٹی سی تھی اور وار بھی گہرا
نہ تھا
موسمِ گُل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں
کا حصار
جب خزاں آئی تو اس پہ ایک بھی پتّا
نہ تھا
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
روح کے روابط میں اس طرح بھی ہوتا ہے
فرقتیں تو ہوتی ہیں فاصلہ نہیں ہوتا
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ تو دَورِ ہجر ہی صدیوں کی کلفت دے
گیا
شورشِ اعداء سے تو ہم لوگ رنجیدہ نہ
تھے
کیا ضروری تھا کہ حرفِ مدّعا ہوتا ادا
میری جاں تم سے مِرے حالات پوشیدہ نہ
تھے
پھر اپنے رب کے حضور دست بدعا ہیں:
اَب جلد آکہ سنگِ عداوت کی زد میں ہے
میری اذان، میری عبادت، مری نماز
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
میری آنکھوںمیں بند ہے برسات
میرے دل میں الاؤ جلتے ہیں
اور پھر بزعم خود خدا بننے والوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں
:
کوئی نمرود ہو ، شداّد کہ فرعون کوئی
اب بصد جاہ و حشم کوئی کہاں ہے سوچو
اب تو قصّوں میں ہی بس انکا نشاںہے
سوچو
تم کہ اس دَور کے فرعون بنے بیٹھے ہو
سوچ لو خوب کہ موسیٰ بھی اسی دور میں
ہے
آج کے دن تو فقط اتنا ہی کہنا ہے مجھے
بات لمبی ہو رہی ہے۔ دامنِ دل می کشد
کہ جا اینجاست
نظموں تک پہنچتے پہنچتے دیر ہو گئی۔
ایک نظم جو اول تا آخر ایک اکائی ہے۔ اگرچہ لباس غزل کا ہے۔ لیکن اس کا انتخاب ممکن
نہیں۔ سترہ شعر ہیں کاش ہمارے بڑے اور ہمارے چھوٹے اسے ازبر کر سکیں۔اس نظم کا عنوان
ہے۔
خدا کرے
خدا کرے کہ صحبتِ امام بھی ہمیں ملے
یہ نعمتِ خلافتِ مدام بھی ہمیں ملے
خدا کرے کہ عشقِ مصطفےٰؐ ہمارے دل میں
ہو
رضائے حق کی مسندِ کرام بھی ہمیں ملے
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے چالیس
دن کے چِلّے کے ثمر پر مثنوی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت
خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور بزرگ خواتین کی وفات پر منظوم دعائیں ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے فرقت کے لمحات کا ذکر ہے۔
آقا ترے بغیر یہ گلشن اداس ہے
سب کا سب ایک ہی رنگ اور تاثیر میں
ڈوبا ہوا کلام ہے۔
ایک ترکیب بند مسدس ہے۔ جس کے نو بند
ہیں۔ چند بند سنئے
:
انسانی لغزشوں سے میں ماورا نہیں ہوں
ماحول سے علیحدہ ربُ الوریٰ نہیں ہوں
لیکن میں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں
ہوں
میں بے عمل ہوں بےشک پر بے وفا نہیں
ہوں
نظریں بھٹک رہی ہیںپر دل میں تُو مکیں
ہے
جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ
میں ا ب نہیں ہے
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
میں مانتی ہوں میرا خالی ہے آبگینہ
نہ آہِ صبح گاہی نہ زاریئ شبینہ
تسلیم کا سلیقہ نہ پیار کا قرینہ
پر میری جان میرا شق ہو رہا ہے سینہ
اب اس میں تابِ فکر و رنج و محن نہیں
ہے
جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ
میں اب نہیں ہے
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ذوقِ دعا کو میرے رنگِ ثبات دے دے
جامِ لِقا پلا دے، آبِ حیات دے دے
یہ تو نہیں میں کہتی کُل کائنات دے
دے
فرقت کی تلخیوں سے بس تُو نجات دے دے
نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں
ہے
جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ
میں اب نہیں ہے
پھر سات بند کی ایک دعا ہے جو ‘زمانے
کے مالک’ سے کی گئی ہے۔
الٰہی دعاؤں کی توفیق دے دے، کہ سجدوں
میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں
ہمارے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، یہ ایمان
کے آزمانے کے دن ہیں
خُدا وندا بندے خُدا بن گئے ہیں، یہی
تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
جو تُو نے اُتارا تھا اس دین سے اب،
جُدا اک نرالا نصاب آگیا ہے
عمل جو بھی احکام پہ کر رہا ہے، وہی
شخص زیرِ عتاب آگیا ہے
ترے نام پر ہو رہی ہیں وہ باتیں، کہ
انسانیت کو حجاب آگیا ہے
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ
تعالیٰ کی علالت کے سلسلے میں دعائیہ نظم ہے۔ دیگر بزرگوں کی وفات پر دعائیہ نظمیں
ہیں۔ اپنے والد گرامی قدر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمدؒ پر دو نظمیں ہیں۔ ایک آزاد
نظم ہے۔ ‘یہ میرا باپ ہے’ اور دوسری وفات کے بعد ‘مرے ا بّا’۔
عزم اور حوصلے میں تو یہ فردہے
آ ہنی مرد ہے
یہ مرا باپ ہے
کوئی کرتا ہے کیا؟
یہ نہیں جستجو
کوئی کہتا ہے کیا؟
دل پہ لیتا نہیں
محوِ ماضی نہیں
حال میں مست ہے
بود کا غم نہیں
قائلِ است ہے
فکرِ فردا نہ فکرِ کم و بیش ہے
مردِ درویش ہے
یہ مرا باپ ہے
پھر ایک نظم ‘لمحہ’ ہے
وہ ایک لمحہ نہ عمر بھر میں کبھی فراموش
کر سکوں گی
وہ ایک لمحہ تو زندگی پر محیط سا ہو
کے رہ گیا ہے۔
یہ نظم آزاد ہے اور اپنی جگہ خوب ہے۔
پھر ایک طویل نظم ہے۔ جس کا عنوان ہے
‘گھر’۔ یہ بھی پڑھنے کی چیز ہے پڑھیئے اور اپنے گھر میں اسے آویزاں کیجئے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ دعائیں قبول
کرنے والا مالک اور قادر خدا آپ کی ساری دعائیں قبول کرے اور جزائے خیر سے نوازے ایک
بار پھر اعتراف کرتا ہوں کہ ہم بے زبانوں اور گونگوں کے دکھوں کو انہوں نے زبان دی
اور لہجہ عطا کیا۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ آپ
کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی فعّال اور مقبول زندگی عطا فرماوے۔ اور وہ ہمارے دلوں
کی ترجمانی کرتی رہیں۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
محمد علی چوہدری مضطر عارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں