368۔ خود سے مل کر ہوئے اداس بہت

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ537

368۔ خود
سے مل کر ہوئے اداس بہت

خود
سے مل کر ہوئے اداس بہت
خود
سے ملنے کی بھی تھی پیاس بہت
اس
کی ہر ایک سے لڑائی ہے
دلِ
ناداں ہے ناشناس بہت
اس
کو برگِ حیا عنایت کر
ابنِ
آدم ہے بے لباس بہت
تیرے
لطف و کرم کے قلزم سے
مجھ
کو ہیں ایک دو گلاس بہت
اوڑھ
لیں گے ترے ستم کی ردا
ہم
کو اتنا بھی ہے لباس بہت
تجھ
کو چاہوں تو کس طرح چاہوں
مَیں
اکیلا ہوں اور حواس بہت
مَیں
بھی شاید کہیں نظر آ جاؤں
اس
ملاقات کی ہے آس بہت
داستاں
جو لکھی ہے یاروں نے
مت
سنا اس کے اقتباس بہت
کبھی
ان سے بھی مل، صحیفوں میں
تیرے
اجداد ہیں اداس بہت
اب
یہیں مستقل رہائش ہے
دل
کی آب و ہوا ہے راس بہت
وہ
برا مان جائیں گے مضطرؔ
!
مت
کرو ان سے التماس بہت
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں