357۔ نذرِ غالبؔ

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ524

357۔ نذرِ
غالبؔ

محفل کا دل اداس ہے، ساقی خموش ہے
ایسے میں کس کو پینے پلانے کا ہوش ہے
نرگس کی آنکھ بیچتی ہے آرزو کے پھول
یہ خود فروش بھی بڑی لذّت فروش ہے
کس بے ادب نے دستِ تمنّا کِیا دراز
بزمِ طلب میں غلغلۂ پوش پوش ہے
جوشِ طلب سے سینۂ گل میں لگی ہے آگ
گلچیں سمجھ رہا ہے چمن سرخ پوش ہے
آبِ حیات، شبنم و گل سے لدی ہوئی
ہر شاخ مے بجام ہے، مینا بدوش ہے
یہ میرے بس کی بات ہے نہ تیرے بس کی
بات
مَیں گر خطا شعار ہوں، تو عیب پوش ہے
اپنے وطن میں لڑتا جھگڑتا تھا رات دن
مضطرؔ دیارِ غیر میں کتنا خموش ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں