349۔ آپ اگر بدگمان اتنے ہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ514

349۔ آپ اگر بدگمان اتنے ہیں

آپ اگر بدگمان اتنے ہیں
کس لیے مہربان اتنے ہیں
یہ شریفوں کا شہر ہے پیارے!
آپ کیوں بدزبان اتنے ہیں
اتنے معصوم ہو تو دامن پر
داغ کیوں میری جان! اتنے ہیں
بولنا بھی انھیں سکھا دیجے
یہ جو اہلِ زبان اتنے ہیں
صلح کیسے ہو عقل کی دل سے
فاصلے درمیان اتنے ہیں
اے زمان و مکان کے مالک!
آپ کیوں لامکان اتنے ہیں
ختم ہونے میں ہی نہیں آتے
عشق کے امتحان اتنے ہیں
لطف و جود و کرم کے فرقت کے
راہ میں سائبان اتنے ہیں
کہیں ربوہ ہے اور کہیں لندن
ہر طرف قادیان اتنے ہیں
وصل در وصل، ہجر اندر ہجر
جان ہے تو جہان اتنے ہیں
چَین سے کٹ رہی ہے زیرِ زمیں
سر پہ بھی آسمان اتنے ہیں
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں” لوگ
حسن کے ترجمان اتنے ہیں
عشق کا ایک ہی قبیلہ ہے
عقل کے خاندان اتنے ہیں
بولتے کس لیے نہیں مضطرؔ!
آپ کیوں بے زبان اتنے ہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں