348۔ حسن مجبور ہو گیا ہو گا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
513

348۔ حسن مجبور ہو گیا ہو گا

حسن مجبور ہو گیا ہو گا
یعنی مستور ہو گیا ہو گا
عشق بدنام ہو گیا ہو گا
اور مشہور ہو گیا ہو گا
کٹ گئی ہو گی پھول سی گردن
وار بھرپور ہو گیا ہو گا
کوئی الزام تو لگا ہو گا
کچھ تو مشہور ہو گیا ہو گا
دور تھا آسمان پہلے ہی
اور بھی دور ہو گیا ہو گا
وہ پرانا مطالبہ دل کا
اب تو منظور ہو گیا ہو گا
معجزہ اُن کے لوٹ آنے کا
چشمِ بد دور! ہو گیا ہو گا
اُن کی ہلکی سی مسکراہٹ سے
درد کافور ہو گیا ہو گا
گر گیا ہو گا اپنی نظروں میں
اشک مغرور ہو گیا ہو گا
روح اصرار کر رہی ہو گی
جسم مجبور ہو گیا ہو گا
بڑھ گیا ہو گا ہجر کا آزار
زخم ناسور ہو گیا ہو گا
چاند نکلا تو ہر طرف مضطرؔ!
نور ہی نور ہو گیا ہو گا
نومبر، ١٩٩٦ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں