346۔ خام ہوں، گمنام ہوں، مستور ہوں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ511

346۔ خام ہوں، گمنام ہوں، مستور ہوں

خام ہوں، گمنام ہوں، مستور ہوں
تیرا کمّی ہوں، ترا مزدور ہوں
دور ہے تو اور پھر بھی پاس ہے
پاس ہوں مَیں اور پھر بھی دور ہوں
آئنہ در آئنہ در آئنہ
عکس کی آہٹ سے چکنا چور ہوں
پوچھتا ہے اشک آدھی رات کا
کون ہوں؟ کس کی نظر کا نور ہوں
گالیاں کھاتا ہوں، دیتا ہوں دعا
آجکل اس امر پر مامور ہوں
چین سے بیٹھا ہوں اَوجِ دار پر
کیا بتاؤں کس قدر مسرور ہوں
تیغ ہوں اور ہوں بھی سیدھے ہاتھ میں
وار ہوں اور کس قدر بھرپور ہوں
فیصلوں میں بھی ہیں میرے تذکرے
اور خبرناموں میں بھی مذکور ہوں
معترض کو ہے فقط یہ اعتراض
کس لیے آثار میں مسطور ہوں
اس کا دعویٰ ہے وطن میں رہ کے بھی
بے وطن ہوں اور نامنظور ہوں
میں تو ہر جھوٹے پہ لعنت بھیج کر
اور کچھ کہنے سے بھی معذور ہوں
ہوں غلام ابنِ غلام ابنِ غلام
پھر بھی کہتے ہو کہ کیوں مشہور ہوں
جو کبھی منسوخ ہو سکتا نہیں
عہد کا مضطرؔ! مَیں وہ منشور ہوں
٣١جنوری،١٩٩٧ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں