341۔ کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکّھا ہؤا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ505۔506

341۔ کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکّھا ہؤا

کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکّھا ہؤا
ہے تو چہرے پر ہے اس کے شکریہ لکّھا
ہؤا
یہ جو اس کے لب پہ ہے حرفِ دعا لکھا
ہؤا
کاتبِ تقدیر نے ہے معجزہ لکھا ہؤا
آسماں پر ہو چکا تھا فیصلہ اس کے خلاف
وہ جو تھا اہلِ زمیں نے فیصلہ لکھا
ہؤا
کوئی تو نازک بدن محوِ خرامِ ناز ہے
ذرّے ذرّے پر ہے جس کا نقشِ پا لکھا
ہؤا
دیکھنے ہم بھی گئے تھے مشہدِ ہجر و
فراق
ایک ہی عہدِ وفا تھا جا بجا لکھا ہؤا
ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو شہرِ جسم و
جان میں
تھا در و دیوار پر اس کا پتا لکھا ہؤا
آہ وہ اشکِ ندامت جو اندھیری رات میں
ایک آیت کی طرح پلکوں پہ تھا لکھا ہؤا
حوصلہ ہے تو اسے پڑھیے گا دل کو تھام
کے
سامنے دیوار پر ہے فیصلہ لکھا ہؤا
مجھ سے لے کر رکھ لیا واپس مرے ستّار
نے
نامۂ اعمال میں تھا جانے کیا لکھا ہؤا
ایک ہی چہرہ ہے مضطر!ؔ ایک ہی حسنِ
تمام
آئنہ در آئنہ در آئنہ لکھا ہؤا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں