323۔ اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ477

323۔ اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو

اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو
پھر اس لہو سے رات کو اُٹھ کر وضو کرو
لیٹے ہوئے ہو کس لیے سولی کی اوٹ میں
تم مر نہیں گئے ہو، اُٹھو گفتگو کرو
مجھ کو بھی اپنے آپ سے ملنے کا شوق
ہے
مجھ کو پکڑ کے لاؤ، مرے روبرو کرو
اچھے بُرے کے پھیر میں پڑتے ہوکس لیے
جو کچھ کہے حبیب وہی ہوبہو کرو
کانٹوں کے تاج،دارورسن،گالیوں کے پھول
یہ سارا انتظام سپردِ عدو کرو
تم لوگ” اور بارِ امانت اٹھا
سکو
!
اللّٰہ ہُو، تم اللّٰہ ہُو، اللّٰہ
ہُو کرو
مضطرؔ! غمِ حبیب تو مولا کی دین ہے
اس غم کا بھول کر بھی نہ چرچا کبھو
کرو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں