308۔ عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
457

308۔ عشق
کا جرم مرے نام لگایا جائے

عشق
کا جرم مرے نام لگایا جائے
شرط
یہ ہے کہ سرِ عام لگایا جائے
کافرِ
شہر ہوں، کافی ہے یہ عزّت مجھ کو
مجھ
پہ اب اور نہ الزام لگایا جائے
اپنی
تعریف میں اچھی سی عبارت لکھ کر
کوئی
پتھر ہی سرِ بام لگایا جائے
دلِ
ناداں کا تقاضا ہے کہ گاہے ماہے
اس
کے ذمّے بھی کوئی کام لگایا جائے
کہیں
ایسا نہ ہو تم کو بھی یقیں آ جائے
اب
یہ نعرہ نہ سرِ عام لگایا جائے
مصلحت
کا یہ تقاضا ہے کہ دشت ِ جاں میں
کوئی
خیمہ نہ سرِ شام لگایا جائے
اب
تو انجام نظر آنے لگا ہے اس کو
اب
نہ اندازۂ انجام لگایا جائے
مَیں
اگر عہد کا سقراط نہیں ہوں مضطرؔ
!
میرے
ہونٹوں سے نہ یہ جام لگایا جائے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں