300۔ روح کے پتھر پگھل جانے بھی دے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ446

300۔ روح
کے پتھر پگھل جانے بھی دے

روح
کے پتھر پگھل جانے بھی دے
سوچ
کو سانچوں میں ڈھل جانے بھی دے
ان
گلی کوچوں کو جل جانے بھی دے
شہر
کا نقشہ بدل جانے بھی دے
اس
قدر اکرام کی بارش نہ کر
ہم
فقیروں کو سنبھل جانے بھی دے
آج
میرا مجھ سے ہو گا سامنا
یہ
قیامت سر سے ٹل جانے بھی دے
منجمد
سورج ہوں آدھی رات کا
میری
برفوں کو پگھل جانے بھی دے
آگ
کی تطہیر ہو گی آگ سے
خود
بھی جل، مضطرؔ کو جل جانے بھی دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں