291۔ سرِ مقتل وفا کے حوصلے بھی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
432

291۔ سرِ
مقتل وفا کے حوصلے بھی

سرِ
مقتل وفا کے حوصلے بھی
محبت
کی سزا بھی ہیں، صلے بھی
شکایت
بھی کرے، شکوے گلے بھی
مگر
وہ سامنے آ کر ملے بھی
زبانوں
پر ہیں خاموشی کے پہرے
درِ
جاں پر صدا کے سلسلے بھی
اگر
یہ فاصلے ہیں بندگی کے
ہمیں
منظور ہیں یہ فاصلے بھی
زمانہ
مندمل کر دے گا ان کو
سلے
ہوں زخم یا ہوں اَن سلے بھی
کسے
فرصت تھی رک کر دیکھنے کی
یہ
غنچے مسکرائے بھی، کھلے بھی
ضروری
تو نہیں اس طرح ملنا
وہ
مل سکتا ہے ہم سے بن ملے بھی
اُٹھا
کر پھینک تو دوں اس کو مضطرؔ
!
مگر
یہ ہجر کا پتھر ہلے بھی؟
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں