285۔ اوّل آئینے سے الفت ہو گئی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ423۔424

285۔ اوّل
آئینے سے الفت ہو گئی

اوّل
آئینے سے الفت ہو گئی
غور
سے دیکھا تو نفرت ہو گئی
اپنے
خادم کی خطائیں دیکھ کر
اور
بھی اس پر عنایت ہو گئی
عشق
کا الزام ثابت ہو گیا
اب
تو سچائی بھی تہمت ہو گئی
مسکراتا
ہی رہا وہ عمر بھر
مسکرانا
اس کی عادت ہو گئی
وہ
اکیلا اور اس کے ارد گرد
چاہنے
والوں کی کثرت ہو گئی
جس
قدر نزدیک سے دیکھا اسے
اتنی
ہی اس سے محبت ہو گئی
ہوں
تو اک ذرّہ مگر حیران ہوں
کس
طرح سورج سے نسبت ہو گئی
رات
بھر ہوتا رہا راز و نیاز
دن
چڑھے تصویر رخصت ہو گئی
پابجولاں
ہم بھی بلوائے گئے
کوئی
تو ملنے کی صورت ہو گئی
غیر
کو مضطرؔ! ہے ناحق اعتراض
ہو
گئی جس سے محبت ہو گئی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں