237۔ دھوپ میں جو ملنے آیا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ354

237۔ دھوپ میں جو ملنے آیا ہے

دھوپ میں جو ملنے آیا ہے
میرا اپنا ہی سایہ ہے
چوٹ لگی ہے میرے دل پر
تُو کیوں آنسو بھر لایا ہے
تیرے دکھ کی خاطر ہم نے
دھرتی کا دکھ اپنایا ہے
اپنوں کے بھی ناز سہے ہیں
غیروں کا بھی غم کھایا ہے
یہ جو بانٹ رہا ہوں سب میں
تیری یاد کا سرمایہ ہے
دھوپ کی شدت ہے سولی تک
آگے سایہ ہی سایہ ہے
ق
چھپ کر دل میں کون آیا ہے
کس نے زخم کو سہلایا ہے
اپنے آپ سے لڑنے والے!
تجھ کو کس نے اکسایا ہے
تیرا نام لکھا تھا اس پر
ہم نے جو پتھر کھایا ہے
پہلا پتھر مارنے والے!
کیا تُو میرا ہمسایہ ہے؟
ہمسائے سے کیسے جھگڑوں
ہمسایہ تو ماں جایا ہے
خود بھی تڑپے ہو تم مضطرؔ!
اَوروں کو بھی تڑپایا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں