405۔ برائی زمین و زماں میں نہیں ہے

اشکوںکے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ592-593

405۔ برائیزمین و زماں میں نہیں ہے

 

برائی زمین و زماں میں نہیں ہے

مکینوں میں ہے یہ مکاں میں نہیں ہے

 

تجھے دیکھ کر تیرا انکار کر دے

یہ ہمت کسی بدگماں میں نہیں ہے

 

کوئی وجہِ ترکِ تعلق عزیزو!

مرے آپ کے درمیاں میں نہیں ہے

 

یہ دھوکا لگا ہے مرے معترض کو

کہ وہ معرضِ امتحاں میں نہیں ہے

 

اگر آپ آ جائیں واپس تو کیا ہے

جو ربوے میں اور قادیاں میں نہیں ہے

 

شکاری بڑی دیر سے منتظر ہیں

پرندہ مگر آشیاں میں نہیں ہے

 

گلی میں تو چرچا ہے اب بھی اسی کا

سنا ہے کہ مالک مکاں میں نہیں ہے

 

فقط دائیں بائیں کا ہے فرق ورنہ

کوئی فاصلہ درمیاں میں نہیں ہے

 

فقط شور ہی شور ہے یہ سراسر

اگر سوز آہ و فغاں میں نہیں ہے

 

یہ دعویٰ ہے دجّال کا اب بھی مضطرؔ

دریچہ کوئی آسماں میں نہیں ہے

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

405۔ برائی زمین و زماں میں نہیں ہے” ایک تبصرہ

  1. شاعر : نعیم ساگر

    کس طرح بیاں ہو تری صفات اے خُدا
    ہو اُمت پر بھی تیری شفاعت اے خُدا

    کروں تیری صفت بیاں
    اُمت کو ملے ہیں ہرجگہ تری محبت کے نشاں

    تفرق شدہ تھی اُمت بکھرے ہوئے ہیں انساں
    کرو ان پر اپنی رحمت کے نشاں بیاں

    ٹوٹنے سے بچ بھی سکتے تھے کرو ان پر اپنی جھلک کے آثار عیاں
    کوئی تو حکمت اس میں جو خاموش ہے آسماں

    شائد کہ انساں کے لہجے سے پریشاں آسماں
    ہو ش میں نہیں ہے شائد انساں

    نکلتی ہے روح کیسے کرتا ہے میرا خُدا بیاں
    سمندر سے بھی گہری ہیں میرے خُدا کی باتیں

    میں کرتا ہوں اپنے خُدا کی شان بیاں
    وہ ملکلموت بیٹھا ہے کیسی کی طاق میں دیکھو

    خاک ِ بدن اب بھی اگر نہ سمجھا تو
    توخُدا دیکھ رہا ہے

    اپنے ہی گھر میں نہیں ملتی ماں کو جنت
    جانے کیوں اس شہر کے آئینہ گھر خاموش ہیں

    پیش خیمہ ہے کسی طوفان کا ساگر
    کچھ تو فکر کر انساں خُدا دیکھ رہا ہے

Unknown کو جواب دیں جواب منسوخ کریں