419۔ آہٹوں کا ریلا ہے

 

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ613

419۔ آہٹوں کا ریلا ہے

 

آہٹوں کا ریلا ہے

راہ رَو اکیلا ہے

 

خاک و خوں ہے خیمے ہیں

کربلا کا میلا ہے

 

تن کی جھوٹ گاڑی کو

جھوٹ نے دھکیلا ہے

 

وہ بھی ایک جھوٹا تھا

یہ بھی اس کا چیلا ہے

 

اس ہجوم کے اندر

آدمی اکیلا ہے

 

ہر خوشی کو چکّھا ہے

ہر ستم کو جھیلا ہے

 

ہم نے کھیل فرقت کا

مسکرا کے کھیلا ہے

 

اٹھ اذان دے مضطرؔ

جاگ فجر ویلا ہے

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں