422۔ ہجر کی رات دن ہے فرقت کا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ616

422۔ ہجر کی رات دن ہے فرقت کا

 

ہجر کی رات دن ہے فرقت کا

کوئی لمحہ نہیں ہے فرصت کا

 

چھُپ کے بہرِ سلام آیا ہے

ایک ادنیٰ غلام حضرت کا

 

تیری دلداریاں گنوں کیسے

نام لوں کیسی کیسی شفقت کا

 

میں تو گھائل ہوں روزِ اوّل سے

تیری صورت کا تیری سیرت کا

 

داہنے ہاتھ میں ہو فردِ عمل

وقت جب آئے میری رحلت کا

 

آسماں پر مقدمہ ہے پیش

میں ہوں امیدوار مُہلت کا

 

تیرے قدموں میں موت ہو میری

ملتمس ہوں میں اس عنایت کا

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں