17۔ گریۂ بے اختیاربیاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب

کلامِ
مختار ؔ

17۔ گریۂ بے اختیاربیاد حضرت صاحبزادہ مرزا
بشیر احمد صاحب

مکرم
چوہدری عبد الواحد صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد تحریر کرتے ہیں کہ حضرت میاں بشیر
احمد صاحب وفات پاگئے۔جنازہ مقبرہ بہشتی کی طرف لے جایا جا رہا تھا ۔حضرت حافظ صاحب
اپنے کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں کھڑے رہے تا آنکہ حضرت میاں صاحب کی تدفین ہوگئی۔بعد
تدفین لوگ واپس ہونا شروع ہوئے ۔حافظ صاحب اُسی حالت غمزدگی میں کمرے میں آکر بستر
پر لیٹ گئے۔رات بھر نیند نہیں آئی۔صبح تک تین سو اشعار کہہ ڈالے۔صبح کو جب حضرت حافظ
صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی ساری کیفیت سنائی اور کہا کہ صبح ثاقبؔ زیروی
صاحب آئے تھے ،کچھ اشعار طلب کیے میں نے کہاان اشعار میں سے چن لو۔
کھلا کر بن جو کھلے ہیں
چمن میں لالہ وگل
ہوا کرے جو نسیم بہار باقی
ہے
کیا کریں سرشمشاد قمریاں
کُو کُو
رہا کرے جو نوائے بہار
باقی ہے
کسے دماغ سنے کون ذکر بلبل
وگل
کہاں سکونِ دل داغدا ر باقی
ہے
مری نگاہ میں تاریک ہو گیا
عالم
نظر سے چھپ گئی ہر شے غبا ر
باقی ہے
نہ تاب ضبط الم ہے نہ
طاقتِ فریاد
 نہ سر میں ہوش نہ دل میں قرارباقی ہے
نہ میرے بس میں رہی میری
چشم اشک فشاں
نہ دل پہ آج مجھے اختیا رباقی
ہے
فدائے دین قمر الانبیاء نے
پائی وفات
جہانِ عشق میں جن کا وقار
باقی ہے
ہزار حیف کے راہی
ہوئے  وہ سوئے عدم
ہزار حیف کہ یہ اشکبا رباقی
ہے
جو کل تھے باعث ِ تسکین غم
کثان نہ رہے
یہ بے قراریہ ہزارو نزا رباقی
ہے
وہ چل دئیے جنہیں تھا
دردخستہ حالوں کا
یہ دل فگار یہ غم کا شکا رباقی
ہے
جو محو خدمت ِ دین تھے وہ
محوخواب ہیں آج
 یہ شرمساریہ غفلت شعا رباقی ہے
نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں وہ
شہسوار کہاں
غبار ہے کہ پس راہوار باقی
ہے
یہ کوہِ صدمہ و غم اور یہ
ضعیف و نحیف
قضا کو آنے میں کیا انتظار
باقی ہے
یہ ابتلائے مقدر تو آچکا
لیکن
نزولِ رحمتِ آمرز گا رباقی
ہے
یہ درد جس نے دیا ہے وہی
دوا دے گا
یہی یقین،یہی انتظا رباقی
ہے
یہ فکر تھی کہ انہیں پر
تھا بارِ خدمت دیں
اُسے اُٹھائے گا کون اب جو
با رباقی ہے
ندائے غیب یکایک یہ دل میں
گونج اٹھی
کہ وہ مسبّب ِ ذوالاقتدا رباقی
ہے
اسی کے ہاتھ کا یہ سلسلہ
تھا اک پودہ
جو صورت ِشجر سایہ دا رباقی
ہے
اُسی نے اس کو بڑھایا وہی
بڑھائے گا
اُسی کے لطف سے اِسکی بہا رباقی
ہے
سمجھ رہی تھی جسے خلق ایک
ذرہِ خاک
 وہ مثل نیرِ نصف النہا رباقی ہے
اُسی کے فضل سے اس کو عطا
ہوا ہے وقار
اُسی کے فضل سے اس کا وقا رباقی
ہے
اُسی نے اس کو نوازا،وہی نوازے
گا
کہ وہ جوچاہے کرے اختیا رباقی
ہے
خدا کے کام کا بندے پہ
انحصار نہیں
کہاں یہ ہستی
ناپائیدارباقی ہے
بقا کسی کو نہیں ساری خلق
ہے فانی
بس ایک خالق وپروردگا رباقی
ہے
ازل سے ہے یہی حال اس
سرائے دنیا کا
کوئی گیا تو کوئی سوگوا رباقی
ہے
یہاں نہ کوئی رہا ہے نہ رہ
سکے گا کوئی
غلط کہ زندگی مستعا رباقی
ہے
جو لوگ اگلے زمانوں میں
تھے کہاں ہیں وہ آج
کوئی نبی نہ کوئی شہریا رباقی
ہے
اسی طرح روشِ روزگار تھی
پہلے
اسی طرح روشِ روزگا رباقی
ہے
ہزار جائیں یہاں سے تو
لاکھ آتے ہیں
نہ اُن کی حد ہے نہ ان کا
شما رباقی ہے
اِس آنے جانے میں کوئی بھی
روک ٹوک نہیں
یہ دورِ مثل خزاں وبہا رباقی
ہے
یہ طرزِ آمدورفت ابتدا سے
آخر تک
بحکم حضرت پروردگا رباقی
ہے
جو اُس جہان سے آتے ہیں وہ
تو جاتے ہیں
نہ اِس میں شک نہ کوئی
اعتذا رباقی ہے
نہ آج تک کوئی آیا نہ کوئی
آئے گا
نہ تھا کسی کو نہ یہ اختیا
رباقی ہے
سوائے صبر نہیں اور کوئی
چارہ کار
یہی علاج ِدلِ بے قرا رباقی
ہے
یہ مانتا ہوں مگر مطمئن
نہیں دل زار
یہ مانتا ہوں مگر اضطرا رباقی
ہے
کسی طرح نہیں جاتی خلش
نہیں جاتی
وہی تڑپ ہے وہی انتشا رباقی
ہے
جب اُن کا ذکر ہو اسیل اشک
امنڈ آیا
یہ سلسلہ ہے کہ لیل و نہا رباقی
ہے
میں روکتا تو ہوں رکتے
نہیں مگر آنسو
رکیں بھی کیا کہ دل بے قرا
رباقی ہے
شکیب و ضبط و تحمل سب اُن
کے ساتھ گئے
یہاں تو گریۂ بے اختیا رباقی ہے
(حیات حضرت مختار صفحہ283-285)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں