19۔ بیانِ اہلِ درد

کلامِ
مختار ؔ

19۔ بیانِ اہلِ درد

1
کیا کوئی بیدرد سمجھے گا
بیانِ اہلِ درد
پوچھ اہلِ درد سے لطفِ
زبانِ اہلِ درد
وہ تو ہیں بیدرداُنہیں کیا
قدر جانِ اہلِ درد
جانِ اہلِ دردپر صبر فغاں
اہلِ درد
دیکھئے رہتا ہے کب تک یہ
مصائب کا ہجوم
دیکھئے ہوتا ہے کب تک
امتحانِ اہلِ درد
 بدگماں بھی جانتے تھے اور انہیں بیدرد بھی
لیکن اس حد تک نہ پہنچا
تھا گما نِ اہلِ درد
کچھ اثر ہوتا نہ ہوتا یہ
تو تھی قسمت کی بات
سن تو لیتے وہ مگر اک دن
بیا نِ اہلِ درد
دیکھئے ہوتی ہیں اب کیا
کیا ستم آرائیاں
کہہ چکے ہیں وہ کہ ہم ہیں
اور جا نِ اہلِ درد
ہے تصور میں کسی بیدرد سے
یہ گفتگو
چشمِ بددور آپ ہی ہیں
مہربا نِ اہلِ درد
آپ ہی کے خلق بے پایاں سے
دل ہیں شاد کام
آپ ہی ہیں خیر سے راحت رسا
نِ اہلِ درد
آپ ہی کے سر ہے سہرا عدل
اور انصاف کا
اللہ اللہ آپ ہی ہیں قدردا
نِ اہلِ درد
اب تو صاحب حد سے گزریں
آپکی بیدردیاں
آپ کچھ دن آکے بیٹھیں
درمیا نِ اہلِ درد
شکر للہ آج تو مختاؔروہ
بھی بول اٹھے
سنئے اہلِ درد ہی سے داستا
نِ اہلِ درد
2
   اللہ اللہ کس ترقی پر ہے شا نِ اہلِ درد
کانپتا ہے عرش بھی سنکر
فغا نِ اہلِ درد
سن نہ بیدردوں سےظالم داستا
نِ اہلِ درد
ان کی باتوں میں کہاں لطفِ
زبا نِ اہلِ درد
ڈھالتی رہتی ہے مخلوق اپنے
اپنے رنگ میں
کس کشاکش میں پڑی ہے داستا
نِ اہلِ درد
چاہیئے اغیار سے بھی پاس ِ
آئینِ وفا
کس قدر نازک ہے شرطِ
امتحانِ اہلِ درد
جان سے بھی بڑھ کے پیاری
کیوں نہ ہو امید ِلطف
اب یہی لے دے کے ہے راحت
رسانِ اہلِ درد
اُس تغافل کیش کو درد آشنا
ہونے تو دو
درد ہی بن جائے گا آرامِ
جا نِ اہلِ درد
روزوشب اِس دھن میں ہیں
دیوانگانِ کوئے دوست
جان جائے یا رہے رہ جائے آ
نِ اہلِ درد
فرش سے آہوں کا اک تانتا
لگا ہے عرش تک
سوئے منزل جا رہا ہے کاروا
نِ اہلِ درد
سن چکے ہیں یہ کہ اس کو آہ
وزاری ہے پسند
اب کہاں تالو سے لگتی ہے
زبا نِ اہلِ درد
جوشِ بارانِ سہام اللیل
طوفان خیز ہے
کاش جائے امن ڈھونڈیں
دشمنا نِ اہلِ درد
کوئی بیدردوں سےاے
مختاؔرکہہ دے مژدہ باد
رنگ لانے ہی کو ہے سوزِ
فغا نِ اہلِ درد
نوٹ مطبوعہ روزنامہ الفضل
قادیان 4اکتوبر1935ء
3
اللہ اللہ کیا ہی دلکش ہے
بیا نِ اہلِ درد
طرزِ اہلِ درد سے ظاہر ہے
شا نِ اہلِ درد
اے دعائے نیم شب اے روحِ
جا نِ اہلِ درد
مونہہ ترا تکتی ہے چشمِ
خونچکا نِ اہلِ درد
اپنی بیدردی پر ان کا ناز
حد سے بڑھ گیا
کیا میں ان کو اب سنادوں
داستا نِ اہلِ درد
داغ ہائے دل سے سینہ ہے
برنگِ لالہ زار
ساتھ اہلِ دل کے ہے بوستا نِ
اہلِ درد
یہ الم یہ رنج یہ تکلیف یہ
ایذا یہ غم
دل پھٹا جاتا ہے سن سن کر
بیا نِ اہلِ درد
اشک بن کر کیوں رواں ہیں
لختِ دل لختِ جگر
ڈھونڈنے نکلا ہے کس کو کاروا
نِ اہلِ درد
چھپ رہا ہے انصاف گم گشتہ
خدا جانے کہاں
جارہی ہے عرش تک آہ وفغا نِ
اہلِ درد
یہ تو اے چشمِ مروت پوچھ
لینے دے مجھے !
کب تک او بے درد کب تک
امتحا نِ اہلِ درد
وہ تو ہیں نامِ خدا آرامِ
دل آرامِ جان
لوگ کہتے ہیں یونہیں
ایذارسا نِ اہلِ درد
ہوگیا افسانہ ذکر وامق و
فرہاد و قیس
اب ہے اپنے دوش پر بارِگرا
نِ اہلِ درد
دنگ ہوجاتا ہوں ان کا روئے
زیبا دیکھ کر
جب وہ کہتے ہیں مٹادیں
گےنشا نِ اہلِ درد
اے فلک کیا جی چراتے بھی
نظر آیا کوئی
بارہا دیکھا ہے تُونےامتحا
نِ اہلِ درد
خوفِ عالم زیرِپابالائے
سرِ فضل ِ خدا
دیکھئے یہ ہیں زمین و آسما
نِ اہلِ درد
اہلِ جوہر زندگی پاتے ہیں
جوہر کے طفیل
درد ہی کے دم سےہے نام
ونشا نِ اہلِ درد
مجمع اغیار کب تک کوچۂ
دلدار میں
اور ہیں بیدرد چند ے میہما
نِ اہلِ درد
ہے یہ میری خوش نگاری یا
فسونِ چشمِ ناز
ورنہ اس بیدرد عالم سے بیا
نِ اہلِ درد
وہ دل آزاری کے شائق اور
میں شیدائے ضبط
ان سے نامِ جور قائم مجھ
سے شا نِ اہلِ درد
تیری عمر اے شوقِ شرحِ
داستانِ دل دراز
ہاتھ بھر کی ہوگئی گویا
زبا نِ اہلِ درد
مظہر 1و گوہر2
کہاں ہیں صادق3 و بسمل4 کہاں
آج پھر مختاؔر ہے محوِبیا نِ
اہلِ درد
1۔مولوی محمد احمدبی اے
ایل ایل بی کپورتھلہ
2خان محمد  ذوالفقارعلی خان صاحب گوہر رام پور
3۔مولوی سید صادق حسین
صاحب اٹاوہ
  4۔حضرت مولانامولوی عبید اللہ صاحب قادیان
مطبوعہ الفضل قادیان 1935ء
4
اس ادا سے سن رہے ہیں
داستانِ اہل ِدرد
 وہ سمجھتے ہی نہیں گویا زبا نِ اہل ِدرد
وہ ہیں بے پروا نہیں
پروائے جانِ اہلِ درد
رفتہ رفتہ ہوچلا ہے یہ گما
نِ اہل ِدرد
لفظ لفظ اس کا ہے گویا
مستقل دنیائے غم
دل تڑپ اٹھتے ہیں سنکر
داستا نِ اہل ِدرد
چشمِ تر دیتی ہے ایذائے دل
و جاں کا ثبوت
ہیں گواہِ اہلِ درد اشکِ
روا نِ اہل ِدرد
ناخدا کیسا خدا کی مہربانی
چاہیئے
ہے بھنور میں کشتئ تاب و
توا نِ اہل ِدرد
گوزمانے میں زباں زد ہو
چکی اُن کی وفا
لیکن اب تک ہورہا ہے امتحا
نِ اہل ِدرد
چھینے لیتے ہیں کھلے بندوں
وہ صبر و ضبط و ہوش
دن دہاڑے لٹ رہا ہے کاروا نِ
اہل ِدرد
وہ معاذاللہ کیوں ایذا
رساں ہونے لگے
لطف آتا ہے مگر سن کر فغا نِ
اہل ِدرد
بے وفائی یا وفا کیا شے ہے
وجہ التفات
اب یہ بحثیں چھڑ گئی ہیں
درمیا نِ اہل ِدرد
سینکڑوں تیر ِستم کھا کر
بھی دم خم ہیں وہی
بارک اللہ تھایہی شایان شا
نِ اہل ِدرد
شانِ غیرت ان سے یہ کب
کہنے دیتی ہے ہمیں
آپ تو بنتے تھے صاحب قدردا
نِ اہل ِدرد
تاکجا آخر یہ شغلِ جورِبے
جا تا کجا
تاکجا یہ کوشش ایذائے جا نِ
اہل ِدرد
 دل ستاں یا جاں ستاں ہے انکی بیدردی تو ہو
مٹ نہیں سکتا مگر نام ونشا
نِ اہل ِدرد
کہہ چکے کہنا تھا بیدردوں
سے جوحالاتِ غم
اب خدا ہی سننے والا ہے
بیا نِ اہل ِدرد
عہدِ پیری اور اے مختاؔریہ
رنگِ شباب
اس کو وہ سمجھیں گے جو ہیں
رازدا نِ اہل ِدرد
مطبوعہ الفضل قادیان
21اگست1935ء
5
کیا کسی بیدرد کو دردِ فغا
نِ اہل ِدرد
 جانِ اہلِ دردپر ہے صبرِجا نِ اہل ِدرد
اس سے فرصت ہو تو پھر کچھ
اور دیکھا جائے گا
اب تو وہ ہیں اور شوقِ
امتحا نِ اہل ِدرد
ہے قیامت لغویاتِ غیر کی
تاثیربھی
وہ یہ کہتے ہیں غلط ہے
داستا نِ اہل ِدرد
بھول جائیں پند گو صاحب
بھی ساری قیل و قال
کچھ دنوں بیٹھیں جوحضرت
درمیا نِ اہل ِدرد
ہے یہ حیرت کیوں نہیں وہ
دیکھ لیتے آئینہ
پوچھتے ہیں کون ہے ایذا
رسا نِ اہل ِدرد
چھاؤنی چھائے پڑے ہیں دل
میں فکرورنج وغم
بھر گیا ہے میہمانوں سے
مکا نِ اہل ِدرد
اس کے یہ معنی کہ حالِ
دردِ دل یکسرغلط
مسکرا دیتے ہیں وہ سنکر
بیا نِ اہل ِدرد
ان کی طرزِ جور کچھ کہتی
ہے ان کا ذوق کچھ
آج کل یہ کشمکش ہےاورجا نِ
اہل ِدرد
وہ بگڑ کر کہہ گئے
مختاؔرضبطِ جور پر
دیکھنا ہے اب ہمیں تاب
وتوا نِ اہل ِدرد
6
قطع کرتے ہیں تو کر دیں وہ
زبا نِ اہل ِدرد
اشکِ خوں بن بن کے ٹپکے گا
بیا نِ اہل ِدرد
بات وہ کرتا ہے جس سے دل
جگر ہوں پاش پاش
چارہ گر بھی بن گیا
ایذارسا نِ اہل ِدرد
آپ بھی بے مثل ہیں اور آپ
کا انصاف بھی
آپ کھلواتے ہیں صاحب کیوں
زبا نِ اہل ِدرد
سارے عالم سے جدا ہے آپ کا
حسنِ سلوک
کیوں نہ ہوں ممنونِ منت
حامیا نِ اہل ِدرد
مدتوں سے سلسلہ جاری ہے
ظلم وجور کا
مدتوں سے ہورہا ہے امتحا نِ
اہل ِدرد
اس سے بے مہری و
بیدردی  تو فرضِ خاص ہے
جس کی صورت پر بھی
ہوجائےگما نِ اہل ِدرد
ہوتی رہتی ہیں صلاحیں آتے
جاتے ہیں عدو
ہے بڑی لے دے پئے ایذائے
جا نِ اہل ِدرد
مشورے بے سود ساری کوششیں
ہیں رائیگاں
اب مٹا سکتا نہیں کوئی
نشانِ اہلِ درد
خط میں پہنچی ہے یہ فرمائش
ِمظہرؔ مجھے
اور اے مختاؔرچندے داستا نِ
اہل ِدرد
 مطبوعہ الفضل قادیان6دسمبر1935ء
7
حضرتِ بسمل نے دی دادِبیا نِ
اہل ِدرد
 دردوالے ہی سمجھتے ہیں زبا نِ اہل ِدرد
جانے کیا کیا رنگ لائے
داستا نِ اہل ِدرد
 گوشِ دل سے وہ اگر سن لیں بیا نِ اہل ِدرد
دنگ ہوں بیدرد بھی سن کر
بیا نِ اہل ِدرد
 درد میں ڈوبی ہوئی ہے داستا نِ اہل ِدرد
دردمندوں کے کبھی  ہمدرد ہوں گے وہ مگر
آج تو مشہور ہیں ایذارسا نِ
اہل ِدرد
روتے روتے کھوگئے ہوش و
خرد صبروقرار
گم ہوا بحری سفر میں کاروا
نِ اہل ِدرد
رفتہ رفتہ دل نشیں ہوجائیں
یہ سب تو سہی
اور کچھ دن آپ بیٹھیں
درمیا نِ اہل ِدرد
دیکھنا ہے حاسدِ بد بیں
اگر اپنا مآل
اک ذرا میری نظر سے دیکھ
شا نِ اہل ِدرد
ان کی بیدردی کوئی تازہ
ستم ڈھانے کو ہے
ہوشیار اے قوتِ ضبط ِفغا نِ
اہل ِدرد
 کیا زباں بندی سے چھپ جائیں گے آثارِستم
آہِ سردوچشمِ تر ہیں ترجما
نِ اہل ِدرد
مژدہ باداے شائقین ِدرسِ
آئینِ وفا
لیجئے مختاؔرپھر ہے مدح
خوا نِ اہل ِدرد
8
اے تری قدرت یہ تاثیرِبیا نِ
اہل ِدرد
 دل پکڑ کر رہ گئے ایذارسا نِ اہل ِدرد
چٹکیاں لیتے ہیں الفاظِ
بیانِ اہلِ درد
چونک چونک اٹھتے ہیں وہ
سنکر فغا نِ اہل ِدرد
چاہے جتنا بھی ستائیں
دشمنا نِ اہل ِدرد
 یہ نرالی شان کا ہے امتحا نِ اہل ِدرد
اس کو سمجھے ہیں مگر افسانۂ
فرہادو قیس
آپ سنئے تو کسی دن داستا نِ
اہل ِدرد
سچ ہے اور ان کی غرض ہی
کیا جفاوجور سے
دیکھتے ہیں قوتِ ضبطِ فغا نِ
اہل ِدرد
پھر عدو پھیلا رہےہیں جوش
ِغیظ واشتعال
پھر بھڑک اے شعلۂ سوزِ نہا
نِ اہل ِدرد
اشک گلگوں سے ہیں بیدردوں
کے بھی رخسار تر
رنگ لائی ہے یہ چشمِ خوں
فشا نِ اہل ِدرد
اوچھے اوچھے وار ہیں
تحقیرِسر بازانِ عشق
چشمِ بددور آپ تو ہیں
قدردا نِ اہل ِدرد
مئے دیا کرتے ہیں ظرفِ مئے
گساراں دیکھ کر
جَور بھی جب ہو تو ہو شایا
نِ شانِ اہل ِدرد
حیف بیدردوں سے ایسا
اتحادوارتباط
کس قدر نامہرباں ہیں مہربا
نِ اہل ِدرد
آپ تو رحمِ مجسم ہیں مگر
حیرت یہ ہے
کوششیں کیسی پئے ایذائے جا
نِ اہل ِدرد
دل تصدق سرفدا جاں اسکے
قدموں پر نثار
فضلِ حق سے جو ہے فخرِ خاندا
نِ اہل ِدرد
قولِ بسملؔ ہے یہ اے
مختاؔر جس کی شان میں
پیرِ ماگردیدیاران ِنوجوا نِ
اہل ِدرد
مطبوعہ روزنامہ الفضل قادیان 6دسمبر1935ء
(حیات حضرت مختار صفحہ288-294)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں