20۔ وارداتِ قلب

کلامِ
مختار ؔ

20۔ وارداتِ قلب

وقت آتا ہے جب ایسا کہ
ہراساں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ نزدیکِ
رگِ جاں ہوں میں
آپ کا آپ کا  صرف آپ کا خواہا ں ہوں میں
سوچئے تو سہی منت کشِ دربا
ں ہوں میں
او مرے آنسوؤں سے آنکھ
چرانے والے!
اس کے معنی تو یہ ہیں دست
بداما ں ہوں میں
اُدھر اغیار ہیں ،وہ خندہ
زن وقہقہہ زن
اِدھر احباب میں حیران
وپریشا ں ہوں میں
یہ سمجھ کر کہ تکلم کی بھی
طاقت نہ رہی
مجھ سے وہ کہتے ہیں تم ہو
کہ گریزا ں ہوں میں
وہ پریشاں ہیں جو نالوں سے
تو اچھا نہ سہی
مگر اتنی تو اجازت ہو کہ
گریا ں ہوں میں
ساتھ ہوں واعظ وناصح بھی
تو جنت کیسی
یہ تو دوزخ ہے کہ ہمراہ
ِسفیہا ں ہوں میں
زلزے سینکڑوں آئے نہ ہلا
پائے ثبات
جس جگہ تھا وہیں اے گردشِ
دورا ں ہوں میں
قیسؔ ملتا تو یہ کہتا ترے
دیوانے سے
آپ کے سامنے اک طفلِ دبستا
ں ہوں میں
اے کہ جس کو ہے مری تلخ
نوائی کا گلہ
تجھ سے یہ کس نے کہا تھا
خوش الحا ں ہوں میں
نہ سہی لطف کی خو جور کی
عادت ہی سہی
جس میں وہ خوش ہوں اُسی
بات کا خواہا ں ہوں میں
"بوریا جائے من و
جائے تونگر قالیں "
شیر قالیں ہو کوئی شیر
نیستا ں ہوں میں
خون سینے میں ہوا سینکڑوں
ارمانوں کا
آدمی کیا ہوں کوئی گنجِ
شہیدا ں ہوں میں
نت نئے رنج سے او مجھ کو
رلانے والے
 کوئی بات ایسی بھی آتی ہے کہ خندا ں ہوں میں
"کون ہوتا ہے حریف
ِمئےمرد افگن ِعشق”
قیسؔ وفرہادکہاں ہیں
سرمیدا ں ہوں میں
زلف وچشم و رخ و لب کی جو
سنیں تشبیہیں
مسکرا کر یہ کہا پھرتو
گلستا ں ہوں میں
غم کسی کا نہیں دیکھا نہیں
دیکھا جاتا
چشمِ دشمن میں بھی سوزش ہو
تو گریا ں ہوں میں
میں ہو ں مست مئے عشق اور
وہ مست مئے حسن
برق ہے ان کی نظر سوختہ
ساما ں ہوں میں
آج تک حضرت ِناصح کی نہ
سمجھا کوئی بات
باوجودیکہ سخن سنج و سخن دا
ں ہوں میں
کھوٹے داموں بھی تو گاہک
نہیں وہ شوخ نگاہ
اس گرانی میں بھی اللہ یہ
ارزا ں ہوں میں
اُس نگاہِ غلط انداز کا
عالم توبہ!
بے خود وبے خبر و بے دل
وبے جا ں ہوں میں
میرے کاٹے نہ کٹی شب تو یہ
آواز آئی
آپ کیا سمجھے تھے صاحب شبِ
ہجرا ں ہوں میں
آگیا ہے پئے گلگشت جو وہ
جانِ بہار
مہک اٹھا ہے گلستاں کہ
گلستا ں ہوں میں
اور کچھ دن یہی عالم ہے
توپھر میں ہوں نہ تُو
تجھ سے اب تنگ بہت اے دل
نالا ں ہوں میں
غیر کیا پائیں گے اپنے بھی
مجھے پا نہ سکے
اُن سے کیا اپنی نگاہوں سے
بھی پنہا ں ہوں میں
قصۂ عشق کے شائق یہ خلاصہ
سن لیں
کہ ملامت زدۂ گبرومسلما ں
ہوں میں
کیا بتاؤں کہ ابھی پیش
ِنظر تھا کیا کیا
کھل گئی آنکھ تو اک خوابِ
پریشا ں ہوں میں
اب کہاں جائے مجھے چھوڑ کے
تنہا یہ غریب
ایک مدت سے انیس ِشبِ ہجرا
ں ہوں میں
سننے والا ہے کہاں کس کو
سناؤں مختاؔر
کیوں پریشاں ہوں کیوں اشک
بداما ں ہوں میں
نوٹ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ
نظم ماہنامہ”الفرقان”ربوہ بابت فروری1961میں شائع ہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ295-296)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں