17۔ جب اس کی بدل گئی نگاہیں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ45۔46

17۔ جب اس کی بدل گئی نگاہیں

جب اس کی بدل گئی نگاہیں
شاہوں کو ملی نہیں پناہیں
جب چھاؤں نہ دیں جہاں پناہیں
بانہوں میں  سمیٹ لیں وہ بانہیں
دشمن کو خبر نہیں کہ کیا ہیں
یہ اَشک یہ آہ کی سپاہیں
تُو ساتھ نہ دے اگر ہمارا
ہم کیسے یہ زندگی نباہیں
اب کج کلہہِ دو جہاں کے آگے
گرنے کو سروں سے ہیں کلاہیں
آخر ترے پا شکستگاں کو
لے آئیں تری طرف ہی راہیں
اے شخص تُو جان ہے ہماری
مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں
سو بار مریں تو تیری خاطر
سو بار جئیں تو تجھ کو چاہیں
اے شخص کہا ں چلا گیا تُو
آجا کہ ترس گئیں نگاہیں
ہر صاحبِ دل کو نذر ہیں یہ
کچھ اپنی کچھ عہد کی کراہیں
1991ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں