19۔ اک خواب ہے اور مستقل ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ49۔50

19۔ اک خواب ہے اور مستقل ہے

اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے
وہ رنگ ہے نور ہے کہ خوشبو
دیکھو تو وہ کس قدر سجل ہے
اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو
تجھ سے مری روح متصل ہے
جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا
اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے
کیا دل کو بہار دے گیا ہے
وہ زخم جو آج مندمل ہے
اک عالمِ وصل میں مسلسل
زندہ ہے دل جو منفعل ہے
1995ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں