21۔ چہرے میں چراغ جل رہا ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ53۔54

21۔ چہرے میں چراغ جل رہا ہے

چہرے میں چراغ جل رہا ہے
آئینے میں دن نکل رہا ہے
اک نور کی صبح میں نہا کر
کپڑے وہ نئے بدل رہا ہے
جتنا وہ سنور رہا ہے اتنا
آئینے کا دل پگھل رہا ہے
وہ قامتِ ناز ہے قیامت
دیدار میں دم نکل رہا ہے
تنہائی کی بے پناہ چپ میں
وہ میرے لہو میں چل رہا ہے
اب صبر کی آنکھ کا یہ آنسو
دامن کے لئے مچل رہا ہے
اک ہاتھ بنا رہا ہے دل کو
اک پاؤں ہے دل مسل رہا ہے
ہر چھاؤں کوئی لے گیااٹھا کر
اب دھوپ میں شہر جل رہا ہے
اے بھائی یہ عجیب ہے دنیا
کس آگ سے تو بہل رہا ہے
کیا سینۂ خاک ہے کہ اس میں
سورج کوئی روز ڈھل رہا ہے
1995ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں