24۔ کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ60

24۔ کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے

کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی لاکھ سمندر پی جائے
کوئی لاکھ ستارے چھو جائے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے
کوئی پھر خالی ہو جاتا ہے
کوئی لمحے بھر کو آتا ہے
کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
1990ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں