29۔ ہر آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ
69۔70

29۔ ہر
آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا

ہر آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا
اِک شخص موجِ خوں میں شراب ہو کے رہ
گیا
ایسے وہ اک نگاہ ملی،مل کے رہ گئی
پل بھر میں زندگی کا حساب ہو کے رہ
گیا
اک انتہائے شوق میں اس سے کیا سوال
وہ ایسے چپ ہوا کہ جواب ہو کے رہ گیا
جب جب میری نگاہ سےوہ چھو گئی نگاہ
موج حیا سے رنگ گلاب ہو کے رہ گیا
کچھ خواب اپنے گھر کے ہیں کچھ اس کے
خواب ہیں
باقی تمام جیسے عذاب ہو کے رہ گیا
اس گل کی اور ہے مرے دل میں شگفتنی
یوں تو جو آیا دل میں گلاب ہو کے رہ
گیا
میں یہ اٹھاؤں جام کہ میں یہ اٹھاؤں
جام
اس میکدے میں، مَیں تو خراب ہو کے رہ
گیا
پانی کہیں سے لاؤ کوئی آسمان کا
یہ دہر فلسفوں کا سراب ہو کے رہ گیا
کیا تھی محبتوں میں وہ خواہش کہ ناگہاں
اک شخص درمیاں میں حجاب ہو کے رہ گیا
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں