38۔ کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ19۔20

38۔ کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں
نے جیون وار دیا

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں
نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا  اِک شخص نے مجھ کو وار دیا
اِک سبز شاخ گلاب کی تھی اِک دنیا اپنے
خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس  کے لئے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں
مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سُکھ
نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی ایک سچائی مجھے جاننے
والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن
لوگوں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا
یوں جینا بھی
اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا
پِندار دیا
میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے
دیکھتا ہوں
اُن لوگوں پر جن لوگوں نے  مرے لوگوں کو آزار دیا
وہ یار ہوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی
ملنے والے
اِک لذّت سب کے ملنے میں وہ زخم دیا
یا پیار دیا
مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا
کے جھونکوں نے
میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا
برگ و بار دیا
1976ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں