69۔ وہ رات بےپناہ تھی اور میں غریب تھا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ81۔82

69۔ وہ رات بےپناہ تھی اور میں غریب تھا

وہ رات بےپناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
وہ روشنی کہ آنکھ اٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مسکرا دیا تو میں شاعرادیب تھا
رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے
سامنے
وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب
تھا
ہر سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا
چپ ہو کہ لب کشا ہو بلا کا خطیب تھا
موجِ نشاط و سیلِ غمِ جاں تھے ایک ساتھ
گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا
میں بھی رہا ہوں خلوت جاناں میں ایک
شام
یہ خواب ہے یا واقعی مَیں خوش نصیب
تھا
حرفِ دعا و دستِ سخا وت کے باب میں
خود میرا تجربہ ہےوہ بے حد نجیب تھا
دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بار
ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ
اُس کو دکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
1983ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں