72۔ گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ87۔88

72۔ گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط
تو ہے

گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط
تو ہے
اندھیرے میں اجالا دھوپ میں سایہ فقط
تو ہے
گدائے دہر کا کیا ہے اگر یہ در نہیں
وہ ہے
ترے در کے فقیروں کی تو کل دنیا فقط
تو ہے
تو ہی دیتا ہے نشّہ اپنے مظلوموں کو
جینے کا
ہر اِ ک ظالم کا نشّہ تو ڑنے والا فقط
تو ہے
وہی دنیا وہی اک سلسلہ ہے ترے لوگوں
کا
کوئی ہو کربلا اس دیں کا رکھوالا فقط
تو ہے
ہواؤں کے مقابل بجھ ہی جاتے ہیں دئیے
آخر
مگر جس کے دئیے جلتے رہیں ایسا فقط
تو ہے
عجب ہو جائے یہ دنیا اگر کھل جائے انساں
پر
کہ اس ویراں سرائے کا دیا تنہا فقط
تو ہے
ہر اِک بے چارگی میں بے بسی میں اپنی
رحمت کا
جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے خداوندا فقط
تو ہے
مرے حرف و بیاں میں آئینوں میں آبگینوں
میں
جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ
فقط تو ہے
1984ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں