107۔ دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ153۔154

107۔ دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا
لیا تو کیا

دل ہی تھے ہم دُکھے ہوئے تم نے دُکھا
لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے ہم کو ستا لیا
تو کیا
آپ کے گھر میں ہر طرف منظر ِ ماہ و
آفتاب
ایک چراغِ شام اگر میں نے جلا لیا تو
کیا
باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ہے
ایک غریب نے اگر پھُول اٹھا لیا تو
کیا
لُطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہار کو
موجِ ہوائے رنگ میں آپ نہالیا تو کیا
اب کہیں بولتا نہیں غیب جو کھولتا نہیں
ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو
کیا
جو ہے خدا کا آدمی اُس کی ہے سلطنت
الگ
ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو
کیا
آج کی ہے جو کربلا کل پہ ہے ا ُس کا
فیصلہ
آج ہی آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا
لوگ دکھے ہوئے تمام رنگ بجھے ہوئے تمام
ایسے میں اہلِ شام نے شہر سجا لیا تو
کیا
پڑھتا نہیں ہے اب کوئی سنتا نہیں ہے
اب کوئی
حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو
کیا
1986ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں