110۔ خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ19۔20

110۔ خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی
نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کومہر
اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں
کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھچی ہوئی ہیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی
ہَوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں
ہم
جو بُجھ گئے تو ہَوا سے شکایتیں کیسی
جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی
نہیں کہ حسن ہی نیر نگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی
نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہلِ کشف و
کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی
جو اَبر ہے سو وہ اب سنگ و خشت لاتا
ہے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی
یہ دورِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں