114۔ کوئی دھن ہو میں تیرے گیت ہی گائے جاؤں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ27۔28

114۔ کوئی دھن ہو میں تیرے گیت ہی گائے جاؤں

کوئی دھن ہو میں تیرے گیت ہی گائے جاؤں
درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں
خواب بن کر تُو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اِسی موسم میں نہائے جاؤں
تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکّھوں تری تصویر بنائے جاؤں
جس کو ملنا نہیں پھر اُس سے محبت کیسی
سوچتا جاؤںمگر دل میں بسائے جاؤں
تو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا
ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں
یہی چہرے میرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں
جان تو چیز ہے کیا رشتۂ جاں سے آگے
کوئی آواز دیے جائے میں آئے جاؤں
شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دُھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں
اہلِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو
میرے
بزم میں آہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں
1972ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں