132۔ اب نہ اس سمت نظر جائے گی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ61۔62

132۔ اب نہ اس سمت نظر جائے گی

اب نہ اُس سمت نظر جائے گی
جیسے گزرے گی گزر جائے گی
صُورت زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی
اس بدلتی ہوئی رفتار کے ساتھ
زندگی جانے کدھر جائے گی
اور کچھ دنوں میں جنوں کی اپنے
شہر در شہر خبر جائے گی
لمحہ لمحہ جو سمیٹی   ہے عمر
ایک لمحے میں بکھر جائے گی
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں