153۔ ایک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ101۔102

153۔ ایک
نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک

ایک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک
اک تماشا ہوں میں شعلے سے شرر ہونے
تک
تُو ہے وہ رنگ کہ آنکھوں سے نہ
اوجھل ہوگا
میں ہوں وہ خواب کہ گزروں گا سحر
ہونے تک
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے
والے
نغمہ اندوہِ سماعت ہے اثر ہونے تک
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں
میرے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے
تک
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی
ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر
ہونے تک
1968ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں