157۔ تیرا اندازِ سخن یاد آیا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ109۔110

157۔ تیرا
اندازِ سخن یاد آیا

تیرا اندازِ سخن یاد آیا
اپنے چپ رہنے کا فن یاد آیا
جس کی خوشبو سے معطر تھا دماغ
پھر وہ شاداب چمن یاد آیا
ہم جسے جیت کے بھی ہارگئے
پھر وہی وعدہ شکن یاد آیا
یاد آئے ہیں مسیحا اپنے
جب کوئی زخمِ کہن یاد آیا
موجِ خوں تھی کہ محبت اپنی
جب بھی آیابدن یاد آیا
ہم کو جنت بھی جہنم ہوگی
گریہی رنج ومحن یاد آیا
سوچتا ہوں کبھی اس کو بھی علیم
مری
غزلیں مرا فن یاد آیا
1959ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں