حرف وحکایت ۔ مکرم احمدندیم قاسمی صاحب

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ41۔43

 حرف وحکایت ۔ مکرم احمدندیم قاسمی صاحب

سنا
ہے کہ تلاش گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ
ایک شخص کا بریف کیس چوری ہوگیا۔ اس نے پولیس میں رپٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک
اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا۔
محترم
چور صاحب قبلہ! السلام علیکم آپ نے میرا بریف کیس چرایا ہے، اس میں میرے پاسپورٹ کے
سوا جو کچھ بھی ہے وہ بریف کیس سمیت اپنے پاس رکھیے مگر کسی طرح یہ پاسپورٹ مجھے بھجوا
دیجیے۔ چند اور کاغذات بھی ہیں۔ ان کاغذات میں سوسوکے چھ نوٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی
اپنے کام میںلائیے۔ بریف کیس پراناہے اس لیے آپ کو اٹھاتے ہوئے شرم آئے گی کیونکہ جب
آپ چوری سے اتنا کچھ کمالیتے ہیں تو سوسائٹی میں آپ ماشاء اللہ بڑے معزز ہوں گے۔ چنانچہ
اگر آپ کا کوئی برخودار پرائمری میں پڑھتا ہے تو بریف کیس میری دعا اور پیار کے ؤساتھ
اسے دے دیجیے۔ مجھے صرف میرا پاسپورٹ درکار ہے! اور سنا ہے کہ دوسرے ہی روز اس شخص
کو اس کا پاسپورٹ رجسٹرڈ پارسل کے ذریعے موصول ہوگیا تھا۔
البتہ
جب ہم مطالعے کی عینک بروقت رکشا حاصل کرنے کی خوشی میں، رکشا ہی میں چھوڑ کر اتر گئے
تھے تو ہم نے رکشاڈرائیور کو مخاطب کرکے متعدد کالم لکھے۔ پھر ان سواریوں کو مخاطب
کیا جو ہمارے بعداس رکشا میں بیٹھی ہوں گی۔ ہم نے ان کی شرافت و نجابت کے قصیدے پڑھے
اور انہیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر وہ ہماری عینک کو اپنے استعمال میںلائے تو انہیں اپنی
آنکھوں کا نمبر بدلوانے کا تردّد کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ
رینگی اور ہم اپنی اس یادگار عینک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔
اب
ہمارے ایک کرم فرما جناب محمدعلی چودھری نے، جو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے
صدر ہیں ہمیں مطلع کیاہے کہ دوماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ان کا بریف کیس ایک دوست کی بظاہر
مقفّل گاڑی میں سے پولیس چوکی سمن آباد سے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر چوری ہوگیا۔
اخبارات میں اشتہارات دیے، انعامات کا بھی اعلان کیا لیکن بریف کیس نہ ملا۔ چودھری
صاحب فرماتے ہیں کہ بریف کیس میں نہایت قیمتی کاغذات تھے۔ اگر یہ کاغذات ہی کسی طرح
انھیں واپس مل جاتے تو چوری کے دکھ میں معتدبہ افاقہ ہوجاتا۔ ان کی خواہش پر ہم محترمی
چور صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ بریف کیس بے شک اپنے پاس رکھیے مگر چودھری صاحب کے کاغذات
واپس فرمادیجیے۔ آپ عنداللہ ماجور ہوں گے ۔
ہمیں
یقین ہے کہ جب چور صاحب ان کاغذات کی تفصیل سنیں گے توان کی واپسی کے لیے بے چین ہوجائیں
گے۔ بات یہ ہے کہ جناب محمدعلی چودھری شاعر بھی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ان تقریباً تین
درجن غزلوں کو بھی قیمتی کاغذات میں شامل فرماتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ سبھی غزلیں غیرمطبوعہ
ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ شاعر کے ذہن سے یہ غزلیں محو ہوچکی ہیں۔ چنانچہ ان کا
وجود اگر کہیں ہے تو اس بریف کیس میں ہے جو شاعر صاحب سے چور صاحب کو منتقل ہوچکا ہے۔
ہم
اس اپیل میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کرناچاہتے ہیں کہ اگر چور اتفاق سے شاعر بھی ہے تو
مقطع میں اپنا تخلص داخل کرکے انہیں کم سے کم چھپوا ہی دے تا کہ چودھری صاحب کو یہ
تسلی تو ہو کہ ان کی کاوش مکمل طور پر غارت نہیں ہوگئی۔ البتہ چور کو اپنا تخلص داخل
کرتے ہوئے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے جیسے ایک شاعر متخلص بہ ”گنہگاؔر” نے لیا
تھا کہ ایک پرانے شاعر مصحفی ؔکی غزل چُرائی اوراپنا تخلص یوں شامل کیا کہ مصرع بحر
سے خارج ہوکر ساحل پر جاپڑا۔ مصحفیؔ کا مصرع تھا:-
مصحفیؔ!
ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
آپ
نے اسے یوں اپنایا:-
گنہگاؔر!ہم
تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
جناب
محمدعلی چودھری فلسفی ہیں اس لیے بہت سادہ مزاج ہیں۔ سو فرماتے ہیں کہ ممکن ہے چور
صاحب نے یہ کاغذات بریف کیس میں سے نکال کر پھینک دیے ہوں اور کسی راہ چلتے کو مل گئے
ہوں، چنانچہ ان راہ چلتے صاحب سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ یہ کاغذات اور مسودات چودھری
صاحب کو واپس کردیں تو وہ ان انعامات کے مستحق ہوں گے جن کا اس سے قبل چوری کے اشتہار
میں اعلان کیا جاچکا ہے۔
کچھ
کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں
(امروز۔28/ستمبر،1977

اپنا تبصرہ بھیجیں