18۔ ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ29۔30

18۔ ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں

ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں
اَور گہری ہو گئیں گہرائیاں
ہجر کی شب کیسی کیسی صورتیں
ہم سے تنہائی میں ملنے آئیاں
رات پروانوں کو جلتا دیکھ کر
شمع خود لینے لگی انگڑائیاں
دل جلے اچھے بھلے خاموش تھے
بات کی تو بڑھ گئیں تنہائیاں
کوچہ و بازار میں برسا لہو
بادلوں کی رُت میں آنکھیں آئیاں
افتاں و خیزاں چلے تیری طرف
راستے میں ٹھوکریں بھی کھائیاں
دشمنوں سے دشمنی بھی چھوڑ دی
دوستوں کی گالیاں بھی کھائیاں
ہم پہ ہیں سایہ فگن اس دھوپ میں
اب بھی تیرے پیار کی پرچھائیاں
اب بھی تیریؐ یاد سے آباد ہیں
شہرِ جسم و جان کی پہنائیاں
تیریؐ سچائی کی ہیں حلقہ بگوش
سب پرانی اور نئی سچائیاں
کیسی کیسی عزّتوں میں ڈھل گئیں
کیسی کیسی ذلّتیں، رُسوائیاں
ہم نے دیکھا ظلم بھی، انصاف بھی
ہم نے ہر حالت میں غزلیں گائیاں
ہم کو جنّت سے نہ دوزخ سے غرض
ہم ہیں تیرے نام کی سودائیاں
اب کوئی حسرت نہیں، تیری قسم!
ہم نے منہ مانگی مرادیں پائیاں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں