40۔ بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ59۔60

40۔ بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا

بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا
ذکر ہے اک خواب کی تعبیر کا
پیرہن جلنے لگا تصویر کا
ہر طرف ہے شور دار و گیر کا
کس نے دستک دی درِ انصاف پر
سلسلہ ہلنے لگا زنجیر کا
آئنہ در آئنہ در آئنہ
جمگھٹا ہے ایک ہی تصویر کا
پھر قسم زیتون کی کھائی گئی
ذکر پھر ہونے لگا انجیر کا
آئنے کی طرح چکنا چور ہے
کوئی رُخ ثابت نہیں تصویر کا
گھر کی باہر سے سفیدی ہو گئی
فائدہ اتنا ہؤا تعزیر کا
مجھ کو سولی دی گئی آواز کی
مَیں شہیدِ وقت ہوں تقریر کا
مجھ کو بھی کچھ تجربہ ہے عشق کا
مَیں بھی زخمی ہوں نظر کے تیر کا
مجھ سے بھی کر لیجیے گا مشورہ
آئنہ بردار ہوں تقدیر کا
اس کو میرا کفر لوٹایا گیا
وہ جو شائق تھا مری تکفیر کا
ناقۃُ اللّٰہ کو ستایا بے سبب
کاٹنا چاہا شجر انجیر کا
آئینے کا بال رہنے دیجیے
فکر  کیجے  آنکھ  کے  شہتیر  کا
تھوڑے ہو کر بھی نہ ہم تھوڑے لگے
معجزہ ہم کو ملا تکثیر کا
دی جگہ مجھ کو فرازِ دار پر
معترف ہوں دل سے اس توقیر کا
میرا قاتل بچ کے جا سکتا نہیں
مجھ سے وعدہ ہے یہ میرے پیر کا
میرے کاٹے کا نہیں کوئی علاج
مجھ کو آتا ہے عمل تسخیر کا
مَیں تمھیں کر کے تہِ دل سے معاف
تم سے بدلہ لوں گا اس تحقیر کا
ٹوٹ ہی جائے گا مضطرؔ! ایک دن
سلسلہ اس جرمِ بے تقصیر کا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں