39۔ کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ57۔58

39۔ کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں

کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں
"کاٹو تو لہو نہیں بدن میں”
آہستہ خرام بلکہ مخرام
پھولوں کے ہیں مقبرے چمن میں
سولی پہ سوار ہے زمانہ
گل ہیں کہ مگن ہیں اپنے من میں
پرچم ہے یہ دل کی مملکت کا
تیشہ نہیں دستِ کوہکن میں
آنسو کو سجا لیا مژہ پر
پتھر کو پرو لیا کرن میں
صدیوں کی صلیب بھی اٹھا لی
لمحوں کو لپیٹ کر کفن میں
چہروں کی لیے اجاڑ چادر
آئے ہیں اسیر انجمن میں
زخموں کے کواڑ بند کر لیں
اتنی بھی سکت نہیں بدن میں
مطرب سے کہو غزل سنائے
تلخی ہے نہ کیف ہے سخن میں
ہم بھی کبھی فاتحانہ مضطرؔ!
جائیں گے دیارِ برہمن میں
(سقوطِ ڈھاکہ)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں