50۔ بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ79۔80

50۔ بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے

بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے
حُسن معصوم، عشق سادہ ہے
مسکراتا پھرے ہے صحرا میں
قیس کا جانے کیا ارادہ ہے
زندگی ہے تو درد ہے پیارے!
زندگی درد کا لبادہ ہے
سارا حسنِ نظر کا ہے اعجاز
حسن عیّار ہے نہ سادہ ہے
گل بھی ہیں، خار بھی ہیں، گلچیں بھی
صحنِ گلشن بہت کشادہ ہے
کھا رہا ہے چمن کو سنّاٹا
سرو خاموش ایستادہ ہے
  پتے  ّپتےّ میں منتظر ہے خزاں
کانٹا کانٹا بہار زادہ ہے
ذرّے ذرّے میں دشت ہیں آباد
قطرے قطرے میں رقصِ بادہ ہے
پھول میں جل رہا ہے خونِ بہار
چاندنی چاند کا برادہ ہے
عقل گردوں سوار ہے اب تک
دل بدستور پاپیادہ ہے
رقصِ کون و مکاں تمام ہؤا
کوئی منزل رہی نہ جادہ ہے
تو نے جو کچھ دیا ہے مضطرؔ کو
اس کی اُمّید سے زیادہ ہے
 
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں