49۔ بے وفا سے وفا طلب کی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ77۔78

49۔
بے وفا سے وفا طلب کی ہے

بے وفا سے وفا طلب کی ہے
تم نے جو بات کی عجب کی ہے
یہ شکایت جو زیرِ لب کی ہے
ہم نے اک بات بے سبب کی ہے
روزِ اوّل سے کرتے آئے ہیں
یہ گزارش جو ہم نے اب کی ہے
آج کا دن طویل تھا کتنا
آج برسوں کے بعد شب کی ہے
گھر میں بیٹھے رہو خدا کے لیے
شہر میں تیرگی غضب کی ہے
رنگ لا کر رہے گی بالآخر
جو صدا ہم نے زیرِ لب کی ہے
کون ہے جو نہیں اسیر اس کا
عشق تقصیر ہے تو سب کی ہے
اس کی آواز کے گلے لگ کر
اپنی آواز بھی طلب کی ہے
اس کی کس کس ادا کا ذکر کریں
اس کی ہر اِک ادا غضب کی ہے
ذکر ہے تو کسی کے قد کا ہے
گفتگو ہے تو چشم و لب کی ہے
وہی محبوب ہے، وہی مقصود
بات کی ہے اسی کی جب کی ہے
جب بھی چاہا اسی کو چاہا ہے
اک یہی بات ہم میں ڈھب کی ہے
وہی ہو گا جو اس کو ہے منظور
یعنی مرضی جو میرے رب کی ہے
کاش سب کو نصیب ہو جائے
موت جو ہم نے منتخب٭کی ہے
تم بھی مضطرؔ! اُٹھو کہ یار نے آج
جسم مانگا ہے، جاں طلب کی ہے
٭…ضرورتِ شعری
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں