68۔ نذرِغالبؔ

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ117۔119

68۔ نذرِغالبؔ

نااُمیدانہ سوچتا کیا ہے
زندگی درد کے سوا کیا ہے
رو رہا کیوں ہے، ہنس رہا کیا ہے
”دلِ ناداں! تجھے ہؤا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے”
تیرا احسان ہے اے فرقتِ یار!
ہم خطاکار بھی ہیں شب بیدار
کوئی سمجھائے عشق کے اسرار
”ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے”
جسم رکھتا ہوں، جان رکھتا ہوں
دل بھی اے مہربان! رکھتا ہوں
ایک طرزِ بیان رکھتا ہوں
”مَیں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے”
راستے گم ہیں، منزلیں مفقود
ایک دھوکا ہے شورِ ہست و بود
عکسِ باہم ہیں شاہد و مشہود
”جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا! کیا ہے”
پاس اعمال ہیں نہ پیسے ہیں
پھر بھی مخمور غم کی مَے سے ہیں
سب سمجھتے ہیں ہم تو جیسے ہیں
”یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے”
اس کے لب پر نہیں نہیں کیوں ہے
دل میں ہے درد اور یہیں کیوں ہے
ہر حسیں اس قدر حسیں کیوں ہے
”شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے”
خواہشوں نے پرے جمائے ہیں
دور تک حسرتوں کے سائے ہیں
ہم نے یہ بت تو خود بنائے ہیں
”سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے”
بند جب سے ہوئی ہے گفت و شنید
خطرۂ ہجر ہے نہ خواہشِ دید
دو حریفوں کو جا کے اب یہ نوید
”ہم کو ان سے وفا کی ہے اُمّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے”
حادثہ دل کا جب ہؤا ہو گا
تُو بھی حیران رہ گیا ہو گا
اب پشیمانیوں سے کیا ہو گا
”ہاں بھلا کر، ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے”
دشمنوں سے بھی پیار کرتا ہوں
شکرِ پروردگار کرتا ہوں
کچھ تو اے میرے یار! کرتا ہوں
”جان تم پر نثار کرتا ہوں
مَیں نہیں جانتا دعا کیا ہے”
تم ہو منجملہ اہلِ دیں غالب
عابد و زاہد و متیں غالب
شیخ کے بھی ہو ہم نشیں غالب
”ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو کیا برا کیا ہے”
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں