83۔ شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ143۔144

83۔ شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو

شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو
اے لمحۂ فراق! کبھی مختصر بھی ہو
کس طرح سے کٹے گی یہ کالی پہاڑ رات
کوئی تو اس سفر میں ترا ہمسفر بھی ہو
اس کو سرِ صفات پکارا کرو، مگر
لازم نہیں  کہ مرحلۂ شوق سر بھی ہو
وہ رنگ ہے تو اس کا بھی کوئی لباس ہو
خوشبو ہے وہ اگر تو کوئی اس کا گھر
بھی ہو
اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے
سینہ بھی ہو دُھلا ہؤا اور آنکھ تر
بھی ہو
وہ چاہتا ہے جب مرے خط کا جواب دے
مَیں بھی ہوں اور ساتھ مرا نامہ بر
بھی ہو
بیٹھے ہیں  انتظار میں چہروں کے چوک میں
شاید کہ دل کا حادثہ بارِ دگر بھی ہو
پت جھڑ کی آنکھ ڈھونڈ تو لے گی ہمیں،
مگر
اس شاخِ سبز پر کوئی لمحہ بسر بھی ہو
بیٹھے رہو اذیّتوں کی پُل صراط پر
ممکن ہے اس طرف سے کسی کا گزر بھی ہو
دوشِ صبا پہ سیر کو نکلی ہے چاندنی
ایسا نہ ہو کہ راہ میں گل کا بھنور
بھی ہو
مضطرؔ نے اپنے آپ سے کر لی مفاہمت
پر یوں نہیں  کہ اس کی کسی کو خبر بھی ہو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں