81۔ وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ139۔140

81۔ وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا

وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا
سورج کو اس نے ٹوکنا چاہا تھا جل گیا
میرے لیے جلائی تھی اس نے چِتا مگر
شعلے ہوئے بلند تو موسم بدل گیا
میں سنگِ رہگزر تھا اکیلا پڑا رہا
طوفاں مرے قریب سے ہو کر نکل گیا
دھرتی کو کھا کے ساحلوں کو چاٹتا ہؤا
نفرت کا سانپ کتنے سمندر نگل گیا
کس طرح اپنے آپ سے لڑتا مَیں چو مکھی
غصّہ کیا جو ضبط تو آنسو نکل گیا
نکلے تھے لوگ عہد کا یوسف خریدنے
بازار میں گئے تو ارادہ بدل گیا
ایوانِ شہرِ یار میں پھسلن تھی اس قدر
جو شخص بھی قریب سے گزرا پھسل گیا
گر وہ نہیں  تو اس سے کئی اور بھی تو ہیں
کالک جبینِ شہر پہ کوئی تو مل گیا
کچھ دشتِ نینوائے ہوس بھی تھا ناشناس
کچھ تیر بھی شہادتِ عظمیٰ کا چل گیا
پھر یوں ہؤا کہ دفعۃً بدلا ہوا کا رُخ
جس حادثے کا لوگوں کو خدشہ تھا، ٹل
گیا
صوت و صدا کا سلسلہ کچھ تو ہؤا بحال
صد شکر ہے کہ روح کا پتھر پگھل گیا
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ
طور کی
موسم بھی سازگار ہے، سورج بھی ڈھل گیا
مضطرؔ! تم آدمی ہو تو ہے وہ بھی آدمی
دیکھو گے ایک دن کہ وہ گر کر سنبھل
گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں