90۔ اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ154

90۔ اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا

اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا
بدل کے رکھ دے گا شکل و صورت جہاں گرے
گا
تم اپنی بانہوں میں اس کو بڑھ کر سنبھال
لینا
ہوا کے رخ پر جہاز کا بادباں گرے گا
نجات مل جائے گی سفر کی صعوبتوں سے
سمندروں میں سرابِ عمرِ رواں گرے گا
کبھی تو دیکھے گا اپنی صورت کو آئنے
میں
کبھی تو اپنی نظر میں وہ بدگماں گرے
گا
خدا کرے آسماں کا خیمہ رہے سلامت
مکین بھی اب تو کہہ رہے ہیں مکاں گرے
گا
بس ایک ہلکا سا لمس درکار ہے نظر کا
منافرت کا مجسّمہ ناگہاں گرے گا
بدن کی اس آگ کو جلاتے رہو عزیزو!
تمھارے اوپر ہی پھر پھرا کر دُھواں
گرے گا
پکڑنے والے بھی منتظر ہیں چھتوں پہ
مضطرؔ
!
کہ یہ پرندہ گرا تو اب نیم جاں گرے
گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں