97۔ کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ162

97۔ کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں

کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں
اُتریں گی زمین پر پناہیں
حالات سے کس طرح نباہیں
جینا بھی اگر نہ لوگ چاہیں
منظر کی نہ تاب لا سکیں گی
بھولے سے اگر ملیں نگاہیں
سینے ہیں مزار خواہشوں کے
چہرے ہیں ہوس کی خانقاہیں
خیموں میں ہیں بے وطن مسافر
خیموں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں
شاید انھیں مل گئے کھلونے
بچّوں کی بدل گئیں نگاہیں
آئے گا جواب آسماں سے
بولیں گی ضرور سجدہ گاہیں
اچھی بھی ہے عقل اور بُری بھی
اتنا بھی نہ عقل کو سراہیں
چھوڑیں بھی ہمیں، ہمارا کیا ہے
اللّٰہ سے اپنی خیر چاہیں
ہم سا بھی نہ ہو گا کوئی ناداں
تجھ سے بھی اگر نہ ہم نباہیں
پتّوں پہ لکھی ہوئی ہیں مضطرؔ!
پَت جھڑ کی تمام اصطلاحیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں