109۔ ارمغاں ہے یہ پیرِ کامل کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ176

109۔ ارمغاں ہے یہ پیرِ کامل کا

ارمغاں ہے یہ پیرِ کامل کا
داغ ہے یا چراغ ہے دل کا
وار اوچھا پڑا ہے قاتل کا
دیدنی ہو گا رقص بسمل کا
گر گئی اس کے ہاتھ سے تلوار
جاگ اُٹھّا ضمیر قاتل کا
آپ طوفاں سے ڈر رہے ہوں گے
مجھ کو کھٹکا لگا ہے ساحل کا
جس قدر تھا قصور آنکھ کا تھا
نام بدنام ہو گیا دل کا
اب کے گزرا کچھ اس طرح طوفاں
مٹ گیا ہے نشان ساحل کا
منزلوں سے گزر رہے ہیں لوگ
پوچھتے ہیں نشان منزل کا
تیرے چہرے کی چاندنی کی قسم
راستہ جگمگا اٹھا دل کا
عقل کیا، عقل کی حقیقت کیا
جمگھٹا سا ہے اک دلائل کا
راستے پاس آ گئے مضطرؔ!
رات قصّہ چھڑا تھا منزل کا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں