120۔ کچھ وہی لوگ سرفروش رہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ189

120۔ کچھ وہی لوگ سرفروش رہے

کچھ وہی لوگ سرفروش رہے
موت کا ڈر نہ جن کو ہوش رہے
آپ نے بات بات پر ٹوکا
ہم سرِدار بھی خموش رہے
کس قدر وضعدار ہیں ہم لوگ
قبر میں بھی سفید پوش رہے
ہم خطاکار تھے بہر صورت
وہ بہر حال عیب پوش رہے
بیٹھے بیٹھے وہ انقلاب آیا
رِند باقی نہ مے فروش رہے
ہم نے اک بات سرسری کی تھی
آپ کیوں عمر بھر خموش رہے
ڈھل چکا دن، اُتر گئے دریا
ولولے ہیں نہ اب وہ جوش رہے
ان کے ہو جاؤ تم اگر مضطرؔ!
فکرِ فردا نہ فکرِ دوش رہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں