122۔ عقل کا اندھا ہے دیوانہ نہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ191۔192

122۔ عقل کا اندھا ہے دیوانہ نہیں

عقل کا اندھا ہے دیوانہ نہیں
تم نے دیوانے کو پہچانا نہیں
عاشقِ صادق ہوں فرزانہ نہیں
میرے اندر عقل کا خانہ نہیں
مَیں گیا موسم نہیں ہوں، وقت ہوں
مجھ کو واپس لوٹ کر آنا نہیں
نیک ہونے کا ہے نیّت پر مدار
نیکیوں کا کوئی پیمانہ نہیں
چین آ سکتا نہیں اس دور میں
اور آ جائے تو گھبرانا نہیں
کوئی منزل ہے نہ کوئی راستہ
اب کہیں آنا نہیں جانا نہیں
پیش و پس کا کیا تجھے ادراک ہو
تُو کسی تسبیح کا دانہ نہیں
زندہ رہنے کی سزا ہے زندگی
کوئی مرنے کا بھی جرمانہ نہیں
دل پہ دستک دے رہے ہو کس لیے
گھر میں کوئی صاحبِ خانہ نہیں
جاؤ لے آؤ شرافت کی َسند
کیا تمھارے شہر میں تھانہ نہیں
تُو ہے مضطرؔ! ایک ہی در کا غلام
تیری قسمت ٹھوکریں کھانا نہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں